صحيح مسلم
كِتَاب الِاعْتِكَافِ -- اعتکاف کے احکام و مسائل
1. باب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ:
باب: رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 2784
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ ".
زہری نے عروہ کے واسطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کےآخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (آخری عشرے میں) اعتکاف کرتی رہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رضی اللہ عنھن (بیویاں) اعتکاف بیٹھتی تھیں۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 570  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھتے اور پھر اعتکاف کی جگہ داخل ہو جاتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 570]
570 فائدہ:
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کا اہتمام کیا اور آپ کے بعد ازواج مطہرات بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔ [سبلا السلام] ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 570   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 790  
´اعتکاف کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ اور عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف ۱؎ کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 790]
اردو حاشہ:
1؎:
اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کر لینے کے ہیں،
اور شرعی اصطلاح میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھنے کو اعتکاف کہتے ہیں،
اعتکاف سنت ہے،
رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا ہے اور آپ کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 790   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2462  
´اعتکاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول وفات تک رہا، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2462]
فوائد ومسائل:
(1) اعتکاف کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کے ساتھ پابند ہو جانا یا کہیں بند رہنا۔
اور شرعی اصطلاح میں: رب ذوالجلال کی عبادت کے لیے انسان کا اپنے آپ کو کسی مسجد میں پابند کر لینا، اعتکاف کہلاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا مشروع، مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہے۔
قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے: (وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَ‌ٰ‌هِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّ‌كَّعِ ٱلسُّجُودِ) (البقرة: 125) ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
دوسری آیت میں فرمایا: (وَلَا تُبَـٰشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ) (البقرہ:187) اور جب تک تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو، عورتوں سے ملاپ نہ کرو۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بستی والوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اعتکاف بیٹھے، یہ محض وہم ہے۔
اس کی کوئی شرعی اصلیت نہیں ہے۔
جب تک کوئی اپنے اوپر لازم نہ کرلے، یہ واجب نہیں ہوتا۔

(2) خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہین بشرطیکہ شوہر اجازت دے۔
اور عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ مسجد ہی ہے، نہ کہ گھر۔
تاہم یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں پردے اور حفاظت کا خاطر خواہ انتطام ہو۔
جس مسجد میں ایسا انتظام نہ ہو، وہاں عورتوں کا اعتکاف بیٹھنا بھی صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح گھروں میں اعتکاف بیٹھنا بھی غیر صحیح ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2462