صحيح مسلم
كِتَاب الِاعْتِكَافِ -- اعتکاف کے احکام و مسائل
3. باب الاِجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ:
باب: رمضان کے آخری عشرہ میں (عبادت میں) جدوجہد کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2787
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، أَحْيَا اللَّيْلَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدَّ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ ".
مسروق نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمر، ہمت باندھ لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، گھر والوں کو جگاتے اور خوب کوشش کرتے اور کمر ہمت کس لیتے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1767  
´رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1767]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
افضل ایام میں نیک اعمال کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

(2)
رمضان کے آخری دس دن سب کے سب فضیلت کے حامل ہیں اسی طرح شب قدر کے علاوہ آ خری عشرے کی با قی را تیں بھی رمضان کی دوسری راتوں کی نسبت افضل ہیں اس لئے ان ایام میں ذکر و تلاو ت و صدقات و خیرات جیسی نیکیو ں میں پہلے سے اضا فہ کر دینا چا ہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1767   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 569  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب (رمضان کا) آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے، رات بھر جاگتے رہتے اور اپنی بیویوں کو بھی جگاتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 569]
569 لغوی تشریح:
«شَدَّ مِنْزَرَهُ» «مِئْزَر» کی میم کے نیچے کسرہ اور ہمزہ ساکن ہے، یعنی اپنی چادر مضبوطی سے باندھ لیتے۔ یہ دراصل کنایہ ہے کہ آپ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، اس کے لیے بڑی کوشش کرتے اور سب کچھ چھوڑ کر عبادت میں لگ جاتے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبادت کی وجہ سے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کر لیتے۔
«وَاَحْيَالَيْلَهُ» یعنی نماز وغیرہ میں ساری رات بیدار رہتے یا اس کا اکثر حصہ جاگتے۔
«وَاَيْقَظَ اَهْلَهُ» اپنے اہل خانہ کو بھی نماز و عبادت کے لیے نیند سے اٹھاتے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 569   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2787  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے،
رات کااکثر حصہ جاگ کر گزارتے اور ان راتوں میں پہلے کی نسبت زیادہ وقت عبادت میں گزارتے اور ازواج مطہرات کو بھی شب بیداری کے لیے اٹھاتے،
اس طرح عبادت کے لیے خوب اہتمام کرتے،
(شَدَّ مِئزَرَهُ)
کا لفظ عربی اسلوب اور محاورہ کے لحاظ سے دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

عورتوں سے الگ تھلک رہنا،
جیسا کہ عربی کا ایک شاعر کہتا ہے۔
قومٌ،
إذا حاربُوا،
شدّوا مآزرَهُم, دونَ النّساء،
ولَوْ باتَتْ بأطْهارِ وہ ایسے جنگجو اوربہادر لوگ ہیں کہ لڑائی کے دنوں میں عورتوں سے تہبند باندھ لیتے ہیں یعنی الگ تھلگ رہتے ہیں اگرچہ وہ حیض ونفاس سے پاک ہوں۔

عبادت کے لیے کمرہمت کس لینا اور عبادت کا خوب اہتمام کرنا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2787