صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ -- کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
25. بَابُ إِذَا فَاتَهُ الْعِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ:
باب: اگر کسی کو جماعت سے عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے۔
حدیث نمبر: 988
وَقَالَتْ عَائِشَةُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ يَعْنِي مِنَ الْأَمْنِ".
اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے (ایک دفعہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چھپا رکھا تھا اور میں حبشہ کے لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں تیروں سے کھیل رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانے دو اور ان سے فرمایا اے بنوارفدہ! تم بےفکر ہو کر کھیل دکھاؤ۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 988  
988. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے مجھے چھپا رکھا تھا اور میں اہل حبشہ کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ وہ مسجد میں کھیل رہے تھے، انہیں حضرت عمر ؓ نے ڈانٹا تو نبی ﷺ نے فرمایا: انہیں اپنی حالت پر رہنے دو، اے بنو ارفدہ! تم اطمینان سے اپنے کرتب جاری رکھو۔ حدیث میں لفظ امن کے معنی بلا خوف و خطر کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:988]
حدیث حاشیہ:
شاید امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب ہر ایک شخص کے لیے یہ دن خوشی کے ہوئے تو ہر ایک کو عید کی نماز بھی پڑھنی ہوگی۔
آنحضرت ﷺ نے عید الاضحی اور بعد کے ایام تشریق گیارہ، بارہ تیرہ سب کو عید کے ایام فرمایا اور ارشاد ہوا کہ ایک تو عید کے دن خودخوشی کے دن ہیں اور پھر منیٰ میں ہونے کی اور خوشی ہے کہ اللہ نے حج نصیب فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 988   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:988  
988. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے مجھے چھپا رکھا تھا اور میں اہل حبشہ کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ وہ مسجد میں کھیل رہے تھے، انہیں حضرت عمر ؓ نے ڈانٹا تو نبی ﷺ نے فرمایا: انہیں اپنی حالت پر رہنے دو، اے بنو ارفدہ! تم اطمینان سے اپنے کرتب جاری رکھو۔ حدیث میں لفظ امن کے معنی بلا خوف و خطر کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:988]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث کی عنوان سے مطابقت کے متعلق ابن منیر نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے ''إنها أيام عيد " یہ عید کے دن ہیں سے استدلال کیا ہے کیونکہ ان الفاظ میں مطلق طور پر عید کی نسبت دنوں کی طرف ہے، اس لیے نماز عید کی اقامت کے لیے منفرد، جماعت، عورتیں اور مرد سب برابر ہیں۔
پھر ابن رشید نے ابن منیر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایام عید اہل اسلام کے لیے ہیں۔
جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ اے اہل اسلام! یہ ہماری عید کے دن ہیں۔
اہل اسلام کے الفاظ منفرد اور جماعت سب کو شامل ہیں، البتہ نماز عید کی قضا کے لیے امام بخاری کا استدلال، ایام منیٰ سب عید کے دن ہیں، سے ہے۔
جب ان ایام کو ایام عید کہا گیا ہے تو یہ دن نماز عید کی ادائیگی کے لیے محل قرار پاتے ہیں کیونکہ اس نماز کی مشروعیت یوم عید کی بنا پر ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایام منیٰ کے آخری دن تک نماز عید کو پڑھا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 612/2)
واللہ أعلم۔
مختصر یہ کہ امام بخاری ؒ نے اس روایت کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ جب عید سب کے لیے ہے تو نماز عید بھی سب کے لیے ہو گی، خواہ شہری ہوں یا دیہاتی، مرد ہوں یا عورتیں۔
(2)
حدیث کے آخر میں لفظ أمنا کو امن سے ماخوذ بتایا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امان سے ماخوذ نہیں کیونکہ لفظ امان کا اطلاق کفارومشرکین پر کیا جاتا ہے، اگر اسے امان سے ماخوذ کیا جائے تو عید کی خوشیاں سب کے لیے ہوں گی، خواہ وہ مشرک ہوں یا کافر۔
امن سے ماخوذ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اہل حبشہ کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے ہراساں کر دیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں امن کی حالت میں رہنے دو، جو کچھ کرتے ہیں انہیں کرنے دو، یعنی اے بنی ارفدہ! امن و اطمینان کے ساتھ کھیلتے رہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 988