صحيح البخاري
كِتَاب الْوِتْرِ -- کتاب: نماز وتر کے مسائل کا بیان
2. بَابُ سَاعَاتِ الْوِتْرِ:
باب: وتر پڑھنے کے اوقات کا بیان۔
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَوْصَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ.
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
حدیث نمبر: 995
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ:" أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ أُطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ، فَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، وَكَأَنَّ الْأَذَانَ بِأُذُنَيْهِ"، قَالَ حَمَّادٌ: أَيْ سُرْعَةً.
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نماز صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں ان میں لمبی قرآت کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو رات کی نماز (تہجد) دو، دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کو طاق بنا لیتے اور صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں (سنت فجر تو) اس طرح پڑھتے گویا اذان (اقامت) کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ حماد کی اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جلدی پڑھ لیتے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 163  
´رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں`
«. . . مالك عن نافع وعبد الله بن دينار عن عبد الله بن عمر: ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى . . .»
. . . سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آ دمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے، اس نے جو نماز پڑھی ہے یہ اسے وتر بنا دے گی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 163]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 990، ومسلم 749، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ وتر ایک رکعت ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک وتر پڑھتے تھے۔ [الموطا 125/1 ح272 وسنده صحيح]
◈ آپ رضی اللہ عنہ اگر تین وتر پڑھتے تو دو رکعتوں پر سلام پھیر دیتے اور ایک رکعت علیحدہ پڑھتے۔ [الموطا 125/1 ح 273 وسنده صحيح]
◈ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان الاحسان: 2426 دوسرا نسخه: 2435 وسنده صحيح]
➌ مغرب کی طرح تین وتر پڑھنا ممنوع ہے۔ [ديكهئے صحيح ابن حبان: 2420 وسنده صحيح]
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سلام کے ساتھ تین وتر اکھٹے پڑھنا ثابت نہیں ہیں۔ جن روایات میں ایک سلام کے ساتھ تین رکعتیں آئیں ہیں، وہ سب کی سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔
➎ خلیل أحمد سہارنپوری انبیٹھوی دیوبندی نے انوار ساطعہ نامی کتاب کے بدعتی مصنف کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے: وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہما صحابہ رضی اللہ عنہ اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ و أحمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا۔ [براهين قاطعه ص7]
➏ نفل (سنت) دو دو رکعت پڑھنا افضل ہے، خواہ دن ہو رات۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 1295، وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 202   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1174  
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1174]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تہجد کی نمازدو دو رکعت کرکے ادا کی جاتی ہے۔

(2)
تہجد کے بعد ایک وتر پڑھ لینا کافی ہے۔
لیکن ایک سلام سے تین یا پانچ رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔

(3)
ایک وترپڑھنے کی بابت رسول للہ ﷺ نے فرمایا۔
مَنْ اَحَبَّ اَن يُّوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ (سنن ابی داؤد، الوتر، باب کم الوتر، حدیث: 1422)
 جوکوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے۔
تو ایک رکعت (وتر)
پڑھے اس سے بلا نفل بھی ایک رکعت وتر پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔
اگرچہ آپﷺکے عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
کہ نوافل کی ادایئگی کے بعد ہی آپﷺنے ایک رکعت وتر پر اکتفا کیا ہے۔
آپﷺ کے اس عمل کو قوی حدیث کے مخالف نہیں سمجھنا چایے۔
کیونکہ جیسے آپﷺ کا عمل امت کےلئے قابل اتباع ہے۔
ویسے آپ ﷺ کا قول اور تقریر بھی قابل عمل ہیں۔
صرف ایک رکعت وتر کی موافقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔
ان کے بارے میں مروی ہے۔
کہ وہ نمازعشاء مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر ہی پڑھا کرتے تھے۔
۔
دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد: 64/3 ومصنف عبد الرزاق، 22، 21/3 وابن ابی شیبة: 292/2)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1174   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 291  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کی نماز دو، دو رکعت کی صورت میں (پڑھی جائے) اور جب تم میں سے کسی کو صبح کے طلوع ہونے کا خدشہ و اندیشہ لاحق ہونے لگے تو (آخر میں) ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ رکعت اس کی ساری نماز کو وتر بنا دے گی۔ (بخاری و مسلم)۔
اور پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی دہ روایت اسی طرح ہے۔ اور ابن حبان نے «صلاة الليل والنهار مثنى مثنى» دن رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ کو صحیح قرار دیا ہے۔ البتہ نسائی نے کہا ہے کہ یہ خطا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 291»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب كيف صلاة النبي صلي الله عليه وسلم....، حديث: 1137، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل مثني مثني، حديث:749، وحديث "صلاة الليل والنهار مثني مثني" أخرجه أبوداود، التطوع، حديث:1295، والترمذي، الجمعة، حديث:597، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1322، والنسائي، قيام الليل، حديث:1667، وأحمد:2 /26، 51، وابن حبان (الإحسان):4 /86، حديث:2473 وهو حديث حسن.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کے اوقات میں پڑھی جانے والی نماز کو دو دو رکعتوں کی صورت میں پڑھنا چاہیے اور دو کے بعد سلام پھیرنا چاہیے۔
امت کی غالب اکثریت نے اسی کو تسلیم کیا ہے۔
2. دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک بھی ثابت ہے بلکہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک ہی ہے۔
لیکن احادیث سے تین‘ پانچ‘ سات‘ نو اور گیارہ تک کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
3.جہاں تک امام نسائی رحمہ اللہ کے لفظ اَلنَّھَار کو خطا کہنے کا تعلق ہے‘ ان کی یہ رائے محل نظر ہے‘ اس لیے کہ امام بخاری‘ امام ابن حبان اور امام بیہقی رحمہم اللہ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں اسے ذکر کیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دن ہو یا رات نوافل دو دو کی تعداد میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے کیونکہ دو دو رکعتوں کے پڑھنے کی صورت میں درود اور بعد از درود دعائیں زیادہ مرتبہ پڑھی جائیں گی‘ اس لیے ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
ویسے دن کو دو دو کر کے پڑھے یا چار چار دونوں طرح جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دن کو چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا بھی ثابت ہے۔
(سنن أبي داود‘ التطوع‘ حدیث:۱۲۷۰‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
)
4. ایک رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں تو تشہد ایک ہی مرتبہ پڑھا جائے گا‘ اگر تین یا اس سے زائد پڑھے تو کیا صورت ہوگی؟ احمد‘ نسائی‘ بیہقی اور حاکم وغیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے اس میں تو صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تین وتر پڑھتے تھے تو صرف آخری رکعت ہی میں تشہد پڑھا کرتے تھے‘ اس لیے صحیح یہ ہے کہ تین رکعت وتر پڑھے جائیں تو درمیان میں تشہد نہ پڑھا جائے۔
مگر احناف رات کے وتروں کو مغرب کی تین رکعات پر قیاس کر کے دو مرتبہ تشہد پڑھنے کے قائل ہیں‘ حالانکہ وتروں کو مغرب کی نماز کی طرح پڑھنے کی ممانعت حدیث میں صراحتاً وارد ہے۔
دیکھیے: (سنن الدارقطني:۲ / ۲۵۔
۲۷‘ وابن حبان‘ حدیث:۶۸۰)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 291   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 437  
´رات کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 437]
اردو حاشہ:
1؎:
رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو،
جبکہ ایک حدیث میں رات اور دن کی نماز دودو رکعت بھی آیا ہے،
در اصل سوال کے جواب میں کہ رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے،
اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طورسے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 437   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1295  
´دن کی نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1295]
1295۔ اردو حاشیہ:
مستحب اور افضل یہ ہے کہ نوافل دن کے ہوں یا رات کے دو رکعت کر کے پڑھے جائیں، ایک سلام سے چار رکعت بھی جائز ہیں جیسے کہ سنن ابي داود گزشتہ حدیث [1270] میں گزرا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں دن کے ذکر کو وہم قرار دیا ہے۔ جب کہ دوسرے علماء نے اسے ثقہ راوی کی زیادت قرار دیا ہے جو کہ مقبول ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [التعليقات السلفية: 1/198]
اس لیے سنن و نوافل، چاہے دن کے ہوں یا رات کے، دو دو کر کے پڑھناراجح ہے، گو بیک سلام، چار رکعات بھی جائز ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1295   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 995  
995. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:995]
حدیث حاشیہ:
اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔
طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔
حضوراکرم ﷺ کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔
ابوبکر ؒ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاء کے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر ؓ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الْإِيتَارِ بِرَكْعَةٍ وَاحِدَةٍ عِنْدَ مَخَافَةِ هُجُومِ الصُّبْحِ، وَسَيَأْتِي مَا يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ تَقْيِيدٍ، وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ الْجُمْهُورُ. قَالَ الْعِرَاقِيُّ:
وَمِمَّنْ كَانَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ الْخُلَفَاءُ الْأَرْبَعَةُ الخ۔
یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ (حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم)
اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
حنفیہ کے دلائل! علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے:
عن محمد بن کعب أن النبي صلی اللہ علیه وسلم نھی عن البتیراء۔
یعنى رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا۔
لفظ (بتیراء)
دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔
عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔
علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت ﷺ سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں، مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے، بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بتیراء تین رکعت وتر بھی بتیراء (یعنی دم کٹی)
نماز ہے۔
فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔
حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ قول ہے:
إنه قال ما أجزأت رکعة قط۔
یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔
امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔
آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔
اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔
ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔
جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز (وتر)
ایک ایک رکعت ادا کی (نیل الأوطار)
بڑی مشکل! یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کا ذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 995   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:995  
995. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:995]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں اوقات وتر کو بیان کیا گیا ہے۔
وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1168)
ہاں! جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا اسے چاہیے کہ نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوئے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو نبی ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کیونکہ وہ رات گئے تک تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے تھے۔
لیکن اگر کسی کو یقین ہو کہ وہ آخر رات میں بیدار ہو سکتا ہے تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے کیونکہ یہ افضل ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ وتر پڑھ کر نیند کرے اور جسے اعتماد ہو کہ رات کے قیام کے لیے بیدار ہو سکے گا تو رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے اور یہ افضل ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1765 (755) (2)
حدیث ابن عمر ؓ میں ہے کہ وتر رات کے کسی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، البتہ اسے صبح کی سنتوں سے پہلے پڑھنا چاہیے۔
مزید وضاحت آئندہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 995