صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
18. باب فِي الْمُتْعَةِ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ:
باب: حج اور عمرہ میں تمتع کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2947
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِالْمُتْعَةِ، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا. (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ: " عَلَى يَدَيَّ دَارَ الْحَدِيثُ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ كَانَ يُحِلُّ لِرَسُولِهِ مَا شَاءَ بِمَا شَاءَ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ قَدْ نَزَلَ مَنَازِلَهُ فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ كَمَا أَمَرَكُمُ اللَّهُ، وَأَبِتُّوا نِكَاحَ هَذِهِ النِّسَاءِ، فَلَنْ أُوتَى بِرَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً إِلَى أَجَلٍ، إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ "،
شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ ابو نضرہ سے حدیث بیان کررہے تھے، کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ حج تمتع کا حکم دیا کر تے تھے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرماتے تھے۔ (ابو نضرہ نے) کہا: میں نے اس چیز کا ذکر جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کیا، انھوں نے فرمایا: "میرے ہی ذریعے سے (حج کی) یہ حدیث پھیلی ہے۔ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جاکر) حج تمتع کیا تھا۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ (خلیفہ بن کر) کھڑے ہوئے (بحیثیت خلیفہ خطبہ دیا) توا نھوں نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو چیز جس ذریعے سے چاہتا حلال کردیتاتھا اور بلا شبہ قرآن نے جہاں جہاں (جس جس معاملے میں) اترناتھا، اتر چکا، لہذا تم اللہ کے لئے حج کو اور عمرے کو مکمل کرو، جس طرح (الگ الگ نام لے کر) اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے۔اوران عورتوں سے حتمی طور پرنکاح کیا کرو (جز وقتی نہیں)، اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص لایاگیا جس نے کسی عورت سے کسی خاص مدت تک کے لئے نکاح کیا ہوگا تو میں سے پتھروں سے رجم کروں گا۔
ابو نضرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع کا حکم دیتے تھے، اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے منع کرتے تھے، یہ بات میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتائی تو انہوں نے بتایا، یہ حدیث میرے ذریعہ ہی پھیلی ہے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس چیز کو جیسے چاہتا تھا، حلال کر دیتا تھا، اور قرآن مجید کا ہر حکم اپنی جگہ لے چکا ہے، اس لیے تم حج اور عمرہ اس طرح پورا کرو، جیسے تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اور ان عورتوں کے نکاح کو یقینی اور دائمی ٹھہراؤ، پھر میرے پاس جو ایسا آدمی لایا جائے گا جس نے ایک مقررہ مدت تک کے لیے نکاح کیا ہو گا تو میں اس کو رجم کر کے رہوں گا، پتھروں سے مار دوں گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2980  
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2980]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر احرام باندھتے وقت صرف حج کی نیت کی گئی ہو تو بعد میں نیت تبدیل کرکے عمرے کی نیت کی جاسکتی ہے۔

(2)
جس کام کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے نامناسب سمجھنا کوئی نیکی نہیں۔

(3)
جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج تمتع نہیں کرسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2980   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1787  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے ۱؎۔ اوزاعی کہتے ہیں: میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کر سکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1787]
1787. اردو حاشیہ: حج کے دنوں میں یا حج کے ساتھ ہی عمرہ بغیر کسی اشکال کے جائز ہے جبکہ ایام جاہلیت میں اسے بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1787