صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
26. بَابُ جَوَازِ التَّحَلُّلِ بِالْإِحْصَارِ وَجَوَازِ الْقِرَانِ وَاقْتِصَارِ الْقَارِنِ عَلٰي طَوَافٍ وَاحِدٍ وَسَعْيِ وَاحِدٍ
باب: احصار کے وقت احرام کھولنے کا جواز، قران کا جواز اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کا جواز۔
حدیث نمبر: 2992
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: " لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ، أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً "، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ اشْهَدُوا، قَالَ ابْنُ رُمْحٍ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ يُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَمْ يَنْحَرْ وَلَمْ يَحْلِقْ وَلَمْ يُقَصِّرْ وَلَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ وَحَلَقَ، وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَذَلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
محمد بن رمح اورقتیبہ نے لیث سے، انھوں نے نافع سے روایت کی کہ جس سال حجاج بن یوسف، ابن سال حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حج کا قصد فرمایا، ان سے کہا گیا: لوگوں کے مابین تو لڑائی ہونے والی ہے، ہمیں خدشہ ہے کہ وہ آپ کو (بیت اللہ سے پہلے ہی) روک دیں گے۔انھوں نے فرمایا: بلا شبہ تمھارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔میں اس طرح کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکیا تھا۔میں تمھیں گواہ ٹھراتا ہوں کہ میں نے (خود پر) عمرہ واجب کرلیا ہے۔پھرروانہ ہوئے، جب مقام بیداء کی بلندی پر پہنچے تو فرمایا: (کسی رکاوٹ کے باعث بیت اللہ تک نہ پہنچ سکنے کے لحاظ سے) حج وعمرے کا معاملہ یکساں ہی ہے۔ (لوگو!) تم گواہ رہو۔ابن رمح کی روایت ہے: میں تمھیں گواہ بناتا ہوں۔میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی خود پرواجب کرلیا ہے۔اور وہ قربانی جو مقام قدید سے خریدی تھی اسے ساتھ لیا۔اور حج اور عمرہ دونوں کاتلبیہ پکارتے ہوئے آگے بڑھے، حتیٰ کہ مکہ آپہنچے، وہاں آپ نے بیت اللہ کا اورصفا مروہ کا طواف کیا۔اس سے زیادہ (کوئی اور طواف) نہیں کیا، نہ قربانی کی نہ بال منڈوائے، نہ کتروائے اور نہ کسی ایسی ہی چیز کو اپنےلئے حلال قرار دیا جو (احرام کی وجہ سے آپ پر) حرام تھی۔یہاں تک کہ جب نحر کادن (دس ذوالحجہ) آیاتو آپ نے قربانی کی اور سرمنڈایا۔ان (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کی رائے یہی تھی کہ انھوں نے اپنے طواف کے ذریعے سے حج وعمرے (دونوں) کاطواف مکمل کرلیا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا (ایک طواف کے ساتھ سعی کی)
نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج، ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں اترا، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کرنے کا ارادہ کیا، تو ان سے عرض کیا گیا، لوگوں میں جنگ ہونے والی ہے، اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیں گے، تو انہوں نے جواب دیا، (تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں) میں ویسے کروں گا، جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے عمرہ کی نیت کر لی ہے، پھر چل پڑے حتی کہ جب مقام بیداء کی بلندی پر پہنچے، کہنے لگے، حج اور عمرہ کی صورت حال یکساں ہی ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1805  
´حج قران کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے «لبيك بعمرة» کہا پھر «لبيك بحجة» کہا) ۱؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لیے (احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ جائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی، پھر (آپ کے لیے محرم ہونے کی وجہ سے) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج پورا کر لیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لیے حلال ہو گئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1805]
1805. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے قران (قاف کے کسرہ کے ساتھ) اور تمتع کی اصطلاحات شروع میں اس طرح مشہور و معروف نہ تھیں جس طرح کہ بعد میں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ احادیث میں قران کے لیے تمتع کا لفظ بھی آیا ہے جیسے کہ مندرجہ ذیل بالاحدیث میں وارد ہوا ہے۔یہاں یہ لغوی معنی میں ہے۔یعنی فائدہ حاصل کرنا۔ چونکہ انہوں نے اپنے سفر حج میں عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا تھا اس لیے یہاں اسے لغوی طور پر تمتع سے تعبیر کر دیا ہے۔ ورنہ موجود اصطلاح کےاعتبار سے یہ حج تمتع نہیں ہے حج قران ہے۔
➋ مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام بیت اللہ کا طواف ہوتا ہے۔ اس طواف کو طواف قدوم کہتے ہیں۔
➌ طواف کی ابتدائی حجر اسود سے اور اس کے استلام سے ہوتی ہے اور اسی پر انتہا بھی۔ استلام کےمعنی ہیں ہاتھ لگانا یا چومنا ایک مکمل طواف میں سات چکر پورے کیے جاتے ہیں اور اس پہلے طواف (طواف قدوم)کے پہلے تین چکروں میں آہستہ آہستہ دو‎ڑنا مسنون ہے۔اسے «رمل» ‏‏‏‏ یا «خبب» کہتے ہیں۔مگر عورتیں اس سے مستثنی ہیں۔بعد والے کسی طواف میں رمل نہیں کیاجاتا۔
➍ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔مستحب یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں۔ان کے بعد دوبارہ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا بھی مسنون عمل ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ خیال رہے کہ حجراسود کو بوسہ دینے کے لیے دھکم پیل ایک قبیح اور ناجائز حرکت ہے اور خواتین کے اندر گھسیں۔چاہیے کہ باوقار انداز سے اپنی باری کا انتظار کیا جائے یا پھر صرف ہاتھ لگا کر اشارہ کر کے آگے گزر جائے۔
➎ حج تمتع یا قران والے کے لیے قربانی واجب ہے۔اگر قربانی کی استطاعت نہ ہو تو دس روزے رکھے۔تین روزے ایام حج میں اور باقی سات اپنے اہل میں واپس آکر۔ایام حج سےمراد 9ذوالحجہ (یوم عرفات) سے پہلے یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (تفسیر فتح القدیر) ب
➏ حج تمتع والا یا عمرے والا بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد حجامت بنوا کر کامل طور پر حلال ہو جاتا ہے جبکہ حج افراد یا قران والا دسویں ذوالحج کو قربانی کرنے اور حجامت بنوانے کے بعد لباس تبدیل کر سکتا ہے اور خوشبو لگا سکتا ہے۔مگر بیوی سے قربت نہیں کر سکتا۔ہاں بیت اللہ کے طواف (طواف افاضہ یا طواف زیارت)کے بعد وہ کامل طورپر حلال ہو جاتا ہے۔
➐ شیخ البانی  نے اس روایت کے الفاظ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ کہا پھر حج کا کو شاذ قرار دیا ہے۔گویا صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے حج کا تلبیہ کہا اور آ‎گے جاکر حج کے ساتھ عمرے کو بھی ملالیا۔ایسا ابتدا میں نہیں ہو ا بلکہ آگے جاکر ہوا۔ اس طرح دوسری روایات کے ساتھ مطابقت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:زاد المعاد فتح الباری عون المعبود وغیرہ۔]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1805