صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ -- کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
6. بَابُ الاِسْتِسْقَاءِ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ:
باب: جامع مسجد میں استسقاء یعنی پانی کی دعا کرنا۔
n
‏‏‏‏ (امام صاحب نے اس باب میں کوئی حدیث ذکر نہیں کی۔ شاید کرنا چاہتے ہوں لیکن موقع نہ ملا ہو یا اس باب کا تعلق بھی حدیث نمبر 1007 سے ہے۔)
حدیث نمبر: 1013
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو ضَمْرَةَ أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَذْكُرُ أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ بَابٍ كَانَ وِجَاهَ الْمِنْبَرِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا، قَالَ أَنَسُ: وَلَا وَاللَّهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابٍ وَلَا قَزَعَةً وَلَا شَيْئًا، وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ، قَالَ: فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِهِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ، فَلَمَّا تَوَسَّطَتِ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سِتًّا، ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يُمْسِكْهَا، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالْجِبَالِ وَالْآجَامِ وَالظِّرَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ، قَالَ: فَانْقَطَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ"، قَالَ شَرِيكٌ: فَسَأَلْتُ أَنَسًا أَهُوَ الرَّجُلُ الْأَوَّلُ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي.
ہم سے محمد بن مرحوم بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے بیان کیا کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ نے ایک شخص (کعب بن مرہ یا ابوسفیان) کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ! (بارش نہ ہونے سے) جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائیے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم اسقنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم اسقنا،‏‏‏‏ اللهم اسقنا» کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا بخدا کہیں دور دور تک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا اور نہ کوئی اور چیز (ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا (کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہو گئی، اللہ کی قسم! ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ! (بارش کی کثرت سے) مال و منال پر تباہی آ گئی اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم على الآكام والجبال والآجام والظراب والأودية ومنابت الشجر» کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ وہی پہلا شخص تھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1170  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1170]
1170۔ اردو حاشیہ:
دعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، ان میں ایک استسقاء کا موقع ہے بلکہ اس موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھانے میں مبالغے سے کام لیا یعنی خوب ہاتھ اٹھائے جیسا کہ اگلی روایت میں صراحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1170   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1171  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1171]
1171۔ اردو حاشیہ:
استسقاء میں الٹے ہاتھوں سے دعا کرنا نیک فال کے طور پر ہے اور مستحب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1174  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! گھوڑے مر گئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہو گئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (نماز پڑھ کر) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا: اے اللہ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما۔‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1174]
1174۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ میں استسقاء کی دعا کرنا بالکل بجا اور سنت ہے۔
➋ استسقاء یا دیگر اجتماعی امور کے لئے اثنائے خطبہ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث: 1029]
➌ انسان ازحد کمزور پیدا کیا گیا ہے، نہ خشکی و گرمی برداشت کر سکتا ہے، نہ بارش و پانی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1174   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1180  
´دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اٹھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھ (مبالغہ کے ساتھ) نہیں اٹھاتے تھے، البتہ آپ استسقاء میں اپنے ہاتھ اتنا اوپر اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1180]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اُٹھائے جایئں لیکن سنن بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قنوت میں ہاتھ اُٹھانا مذکور ہے۔ (السنن الکبريٰ للبہیقي: 211/2)
بعض دیگراحادیث میں اور مواقع پر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا وارد ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، الجھاد، باب المداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر واباحة الغنائم، حدیث: 1763، وصحیح البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتین۔
۔
۔
، حدیث: 1751)

اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کی دعا میں ہاتھ زیادہ بلند کرتے تھے۔
جب کہ دوسری اوقات میں اس طرح ہاتھ بلند نہیں کیے۔
بلکہ کم بلند کئے۔

(2)
دعائے قنوت وتر میں نبی کریمﷺ نے ہاتھ اُٹھائے یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صراحت نہیں ہے البتہ دعائے قنوت نازلہ میں (جو رکوع کے بعد آپ نے مانگی ہے)
آپ ﷺ کا ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔
اس لئے اس پر قیاس کرتے ہوئے دعا قنوت میں وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔
علاوہ ازیں بعض صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سےدعائے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے ک اثبوت ملتا ہے۔
اس لئے ہاتھ اُٹھا کردعائے قنوت پڑھنا بہتر ہے گوجواز بغیر ہاتھ اُٹھائے بھی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1180   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 408  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، وہ بولا یا رسول اللہ! اموال (مویشی) ہلاک ہو گئے اور آمدورفت کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اللہ کے حضور دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دعا فرمائی۔ «‏‏‏‏اللهم أغثنا اللهم أغثنا» ‏‏‏‏ یا الٰہی! بارش سے ہماری فریاد رسی فرما۔ یا الٰہی! باران رحمت سے ہماری فریاد رسی فرما۔ ساری حدیث بیان فرمائی۔ اس میں بارش کے بند کروانے کی دعا کا بھی ذکر ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 408»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب الاستسقاء في المسجد الجامع، حديث:1013، ومسلم، صلاة الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، حديث:897.»
تشریح:
1. اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم السلام بلکہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر چیز اللہ رب العالمین سے براہ راست طلب فرماتے تھے۔
بیچ میں کسی کو واسطہ یا ذریعہ بنانا صحیح نہیں سمجھتے تھے‘ ورنہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوالانبیاء یا ابوالبشر یا کسی دوسرے اولوالعزم پیغمبر کا واسطہ دے کر بارش طلب فرماتے۔
2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازخود نہیں بلکہ اللہ کے حضور استدعا کرتے ہیں کہ وہ بارش برسا کر لوگوں کو قحط سالی سے نجات دے۔
3.یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مَاکَانَ وَمَا یَکُونُکا علم بھی نہیں رکھتے تھے‘ ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ قحط سالی کی وجہ سے بیرون شہر لوگوں کا کیا حال ہے۔
اس آدمی کے بتانے پر معلوم ہوا۔
4.وہ آدمی کون تھا‘ اس میں اختلاف ہے۔
کسی نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے‘ حالانکہ وہ اس وقت دائرۂ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔
انداز گفتگو اور طرزکلام سے محسوس ہوتا ہے کہ سائل یقینا کوئی مسلمان تھا ورنہ آج کل کے نام نہاد مسلمانوں کی طرح آپ کو مشکل کشا سمجھ کر آپ ہی سے درخواست کرتا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں قحط سالی کی مصیبت سے نجات دلا۔
بعض نے کہا: اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے بارش کے لیے صرف دعا ہی فرمائی ہے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے غالباً اسی سے استدلال کیا ہے کہ استسقا کے لیے صرف دعا کرنا سنت ہے۔
مگر دوسری احادیث سے نماز استسقا پڑھنا بھی ثابت ہے۔
5. اس سلسلے کی تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے چھ طرح مختلف اوقات میں دعا کی ہے: ٭ ایک دفعہ تو آپ لوگوں کو عیدگاہ میں لے گئے‘ نماز پڑھائی‘ خطبہ بھی دیا اور دعا بھی فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ صلاۃ الاستسقاء‘ حدیث:۱۱۷۳) ٭ ایک دفعہ خطبۂجمعہ کے دوران ہی میں منبر پر کھڑے کھڑے صرف دعا فرمائی۔
(صحیح البخاري‘ الاستسقاء‘ حدیث: ۱۰۱۴) ٭ ایک مرتبہ آپ نے باقاعدہ منبر منگوایا‘ اس پر بیٹھ کر مختصر خطبہ ارشاد فرمایا‘ دعا کی‘ پھر دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔
(سنن ابن ماجہ‘ حدیث:۱۲۷۰) ٭ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے دعا کی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۹) ٭ ایک دفعہ مسجد سے باہر نکل کر زوراء کے قریب احجار الزیت مقام میں جا کر دعا فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۸) ٭ اور ایک دفعہ کسی جنگ کے دوران میں بارش کے لیے دعا فرمائی۔
ہر دفعہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتخریج شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط: ۱ / ۴۳۹. ۴۴۴)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 408   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1013  
1013. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1013]
حدیث حاشیہ:
سلع مدینہ کا پہاڑ۔
مطلب یہ کہ کسی بلند مکان یاگھر کی آڑ بھی نہ تھی کہ ابرہو اور ہم اسے نہ دیکھ سکیں بلکہ آسمان شیشے کی طرح صاف تھا، برسات کا کوئی نشان نہ تھا۔
اس حدیث سے حضرت امام ؒ نے یہ ثابت فرمایا کہ جمعہ میں بھی استسقاء یعنی پانی کی دعا مانگنا درست ہے، نیز اس حدیث سے کئی ایک معجزات نبوی کا ثبو ت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ پاک سے بارش کے لیے دعا فرمائی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔
پھر جب کثرت باراں سے نقصان شروع ہوا تو آپ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائی اور وہ بھی فوراًقبول ہوئی۔
اس سے آپ کے عند اللہ درجہ قبولیت وصداقت پر روشنی پڑتی ہے۔
صلی اللہ علیه وسلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1013   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1013  
1013. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1013]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے صرف یہی مسئلہ ثابت کیا ہے کہ دعائے استسقاء کے لیے باہر کھلے میدان میں جانا، قبلہ رو ہونا اور چادر وغیرہ پلٹنا اگرچہ مشروع ہے، لیکن حالات و ظروف کے مطابق صرف دعا بھی کی جا سکتی ہے، نیز اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے کئی ایک معجزات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ سے بارش کی دعا کی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔
پھر کثرت باراں سے جب نقصان ہونے لگا تو آپ نے بارش ادھر ادھر برسنے کی دعا فرمائی تو وہ بھی فوراً قبول ہوئی، نیز اس میں رسول اللہ ﷺ نے دعا کا ادب بھی سکھایا ہے کہ مطلق طور پر بارش رکنے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ اس قدر دعا کی جس سے نقصان زائل ہو جائے اور نفع باقی رہے۔
(فتح الباري: 653/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1013