صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
53. باب بَيَانِ وَقْتِ اسْتِحْبَابِ الرَّمْيِ:
باب: کنکریاں مارنے کا مستحب وقت۔
حدیث نمبر: 3142
وحَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبردی، (کہا:) ہمیں ابن جریج نے خبر دی، (کہا:) مجھے ابو زبیرنے بتایا کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے اسی کے مانند ہے۔
امام صاحب اپنے دوسرے استاد سے بھی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طرز عمل بیان کیا ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3142  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جمہور کے نزدیک قربانی کے دن،
سورج چڑھنے کے بعد کنکریاں مارنا افضل ہے۔
اور بعد کے دنوں میں سورج ڈھلنے کے بعد،
اگرایام تشریق میں سورج ڈھلنے سے پہلے کنکریاں مارے گا،
تو ائمہ اربعہ کے نزدیک کنکریاں دوبارہ مارنی ہوں گی تیسرے دن احناف اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سورج ڈھلنے سے پہلے کنکریاں مار سکتا ہے لیکن روانگی سورج ڈھلنے کے بعد ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3142