صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
68. باب اسْتِحْبَابِ دُخُولِ الْكَعْبَةِ لِلْحَاجِّ وَغَيْرِهِ وَالصَّلاَةِ فِيهَا وَالدُّعَاءِ فِي نَوَاحِيهَا كُلِّهَا:
باب: حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبہ میں داخل ہونے اور اس کے تمام اطراف میں نماز پڑھنے اور دعا کرنے کا استحباب۔
حدیث نمبر: 3238
حدثنا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حدثنا هَمَّامٌ ، حدثنا عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ، وَفِيهَا سِتُّ سَوَارٍ، فَقَامَ عَنْدَ سَارِيَةٍ، فَدَعَا وَلَمْ يُصَلِّ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں دا خل ہو ئے اور اس میں چھ ستون تھے آپ نے ایک ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا مانگی اور (وہاں) نماز ادا نہیں کی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور اس میں چھ ستون تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3238  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے،
اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض تمام اطراف و جوانب میں دعا فرمائی ہے نماز نہیں پڑھی ہے،
لیکن تمام محدثین کا اصولی قاعدہ ہے کہ مثبت،
منفی پر مقدم ہے یعنی کسی واقعہ کے بارے میں زائد چیز بتانے والے کی بات مانی جائے گی،
نفی کرنے والے کی بات نظرانداز کردی جائے گی،
کیونکہ ہر ایک اپنے علم کے مطابق بات کرتا ہے اور ایک کا علم دوسرے سے زائد ہو سکتا ہے۔
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر داخل ہو کر دعا اور نماز دونوں کام کیے ہیں اس لیے ہر ایک نے جو دیکھا تھا بتا دیا،
حضرت اسامہ دور دعا میں مشغول رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سے فراغت کے بعد دو خفیف رکعات پڑھیں،
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پاس تھے انھوں نے دیکھ لیا،
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دور تھے،
دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا اس لیے وہ نہ دیکھ سکے،
یا ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودفعہ داخل ہوئے ہوں ایک دفعہ نمازپڑھی اور ایک دفعہ نہ پڑھی اس لیے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نفی اور اثبات دونوں ثابت ہیں،
لیکن بیت اللہ میں داخل ہونا اورنماز پڑھنا مناسک حج میں داخل نہیں ہے،
اس لیے جمہور کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں کعبہ کے اندر داخل نہیں ہوئے۔
تاکہ لوگ اس کو حج کا حصہ نہ سمجھ لیں،
نیز کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں آئمہ کے درمیان اختلاف ہے،
اگر کعبہ کا دروازہ بند ہو تو جمہور جس میں،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ داخل ہیں کے نزدیک کعبہ کے کسی بھی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا صحیح ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض نماز،
وتر،
فجر کی سنتیں اور طواف کی دورکعات صحیح یا جائز نہیں،
عام نفل پڑھنا جائز ہے اور بعض اہل ظاہر کے نزدیک کوئی نماز خواہ فرض ہو یا نفل پڑھنا جائز نہیں ہے،
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات ہی نقل کرتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3238