صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
79. باب فَضْلِ يَوْمِ عَرَفَةَ:
باب: عرفہ کے دن کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 3288
حدثنا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالا: حدثنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ يُوسُفَ ، يَقُولُ: عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَالَت عَائِشَةُ : إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو، وہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا، اور وہ قریب ہوتا ہے، اور فرشتوں کے سامنے (وہاں موجود) لوگوں پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3014  
´عرفات میں دعا کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جتنا عرفہ کے دن اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں، اللہ تعالیٰ قریب ہو جاتا ہے، اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور فرماتا ہے: میرے ان بندوں نے کیا چا ہا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3014]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عرفے کے دن اللہ کی رحمت کا دن ہے، اس لیے اس دن روزہ رکھنا مسنون ہے، تاہم حاجیوں کے لیے یہ روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ اللہ کے رسول اللہﷺ نے عرفات میں یہ روزہ نہیں رکھا تھا۔ (صحيح البخاري، الصوم، باب صوم يوم عرفة، حديث: 1988)

(2)
اللہ کا قریب ہونا اور کلام کرنا اس کی صفت ہے جس کی کیفیت بندوں کو معلوم نہیں۔
صفات الہی پر ایمان رکھنا چاہیے لیکن ان صفات کو بندوں کی صفات سے مشابہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

(3)
حج میں بندے اللہ کی رضا اور رحمت کے حصول کے لیے عرفات میں جمع ہوتے ہیں، اس لیے انھیں یہ رحمت و مغفرت حاصل ہوجاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3014   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3288  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مصنف عبدالرزاق میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے۔
جس سے اس حدیث کا صحیح معنی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے،
اور فرشتوں کو فرماتا ہے میرے یہ بندے پراگندہ بال،
خاک آلود آئے ہیں میری رحمت کے اُمید وار ہیں میرے عذاب سے خوفزدہ ہیں حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہے اگر یہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا۔
اس فخرومباہات کے اظہار کے بعد ان سے پوچھتا ہے،
آخر ان لوگوں نے اپنا گھر بار،
اہل و عیال،
کاروبار کس مقصد کے لیے چھوڑا ہے اپنے مال،
وقت کوخرچ کرکے،
سفرکی صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہوئے کیوں آئے ہیں،
یعنی میری بخشش،
رضا مندی اورقرب ولقاء کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہو سکتا۔
صرف مجھے راضی کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے آئے ہیں،
تاکہ انہیں میرا تقرب حاصل ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3288