صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
85. باب فَضْلِ الْمَدِينَةِ وَدُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا بِالْبَرَكَةِ وَبَيَانِ تَحْرِيمِهَا وَتَحْرِيمِ صَيْدِهَا وَشَجَرِهَا وَبَيَانِ حُدُودِ حَرَمِهَا:
باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3325
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مِكْيَالِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ ".
اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حجرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اےاللہ!ان (اہل مدینہ) کے لیے ان کے ناپنے کے پیمانے میں بر کت عطا فر ما، ان کے صاع میں بر کت عطا فر ما۔اور ان کے مد میں بر کت فر ما۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ان کے (اہل مدینہ کے) پیمانہ میں برکت فرما، ان کے صاع میں برکت فرما اور ان کے مد میں برکت فرما۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 641  
´مکہ اور مدینہ کو دوسرے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اللهم بارك لهم فى مكيالهم وبارك لهم فى صاعهم وفي مدهم يعني اهل المدينة . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ان یعنی مدینے والوں کے اوزان میں برکت ڈال اور ان کے صاع و مد (تولنے کے پیمانوں) میں برکت ڈال . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 641]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2130، و مسلم 1368، من حديث مالك به]

تفقه:
صاع: غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ جو اہل حجاز کے حساب سے 4 مُد (4 پونڈ) یعنی گیارہ سو بیس درہم کے وزن کے بقدر ہوتا ہے۔ اور اہل عراق کے حساب سے 8 رطل کے برابر یا دو سیر چودہ چھٹانک چار تولہ کے برابر۔ [القاموس الوحيد ص951]
شریعت میں اہل عراق کے صاع کا کوئی اعتبار نہیں صرف اہل مکہ اور اہلِ مدینہ جو اہل حجاز ہیں کے صاع کا اعتبار ہے۔
مُد: اہل حجاز کے نزدیک یہ ایک رطل اور ثلث رطل ہے۔ [القاموس الوحيد ص1532]
➌ مکہ اور مدینہ کو دوسرے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے لئے کئی دفعہ برکت کی دعا فرمائی۔ تیسری یا چوتھی دفعہ لوگوں نے کہا: «یا رسول اللہ! وفي عراقنا» اے اللہ کے رسول! اور ہمارے عراق (کے بارے) میں (برکت کی دعا فرمائیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہاں شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [المعجم الكبير للطبراني 12/384 ح13422]
معلوم ہوا کہ (مدینے کے مشرق کی طرف) عراق کی سرزمین فتنوں اور گمراہ فرقوں کا مسکن ہے اور یہی وہ نجد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی لہٰذا مکے و مدینے کے اوزان کے مقابلے میں عراقی اوزان پیش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [ح: 293]
➎ ایسی روایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عراق کے سارے لوگ غلط اور خراب ہیں بلکہ عراق میں بہت اچھے اور جلیل القدر لوگ بھی تھے اور ہیں۔ ان روایت میں عام حالات میں اکثریت کی مذمت مقصود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 120   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3325  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صاع اور مد دونوں پیمانے ہیں اس دور میں غلہ وغیرہ کی خریدوفروخت ان ہی پیمانوں سے ہوتی تھی اور ان میں برکت کا مفہوم ومقصد یہ ہے کہ عام لوگوں کا ایک صاع یا ایک مد جتنے آدمیوں کے لیے یا جتنے دنوں کے لیے کفایت کرتا ہے اہل مدینہ کا صاع اور مد اس سے زیادہ آدمیوں اور دنوں کے لیے کافی ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3325