صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
85. باب فَضْلِ الْمَدِينَةِ وَدُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا بِالْبَرَكَةِ وَبَيَانِ تَحْرِيمِهَا وَتَحْرِيمِ صَيْدِهَا وَشَجَرِهَا وَبَيَانِ حُدُودِ حَرَمِهَا:
باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3327
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ، حدثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حدثنا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، قَالَ: وَصَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ، فَقَدْ كَذَبَ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ، وَأَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، وَفِيهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا "، وَانْتَهَى حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ، عَنْدَ قَوْلِهِ: يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَلَمْ يَذْكُرَا مَا بَعْدَهُ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا: مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ،
ہمیں ابو بکر بن ابی شیبہ زہیر بن حرب اور ابو کریب سب نے ابو معاویہ سے حدیث بیان کی (کہا) ہمیں اعمش نے ابراہیم تیمی سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہمیں علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: جس نے یہ گمان کیا کہ ہمارے پاس کتاب اللہ اور اس صحیفہ۔۔۔ (راوی نے) کہا: اور وہ صحیفہ ان کی تلوار کے تھیلے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔۔۔کے علاوہ کچھ ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو اس نے جھوٹ بولا اس میں (دیت کے) کچھ احکام ہیں۔اور اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " عیر سے ثور تک کے درمیان (سارا) مدینہ حرم ہے: جس نے اس میں کسی بدعت کا ارتکاب کیا بدعت کے کسی مرتکب کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی۔قیامت کے دن اللہ تعا لیٰ اس سے کوئی عذر قبول کرے گا نہ کوئی بدلہ اور سب مسلمانوں کی ذمہ داری (امان) ایک (جیسی) ہے ان کا ادنیٰ شخص بھی ایسا کرسکتا ہے (امان دے سکتا ہے) جس شخص نے اپنے والد کے سواکسی اور کا (بیٹا) ہو نے کا دعویٰ کیا یا جس (غلام) نے اپنے موالی (آزاد کرنے والوں) کے سوا کسی اور کی طرف نسبت اختیار کی اس پر اللہ کی، فرشتوں کی ا اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔قیامت کے دن اللہ تعا لیٰ اس سے کوئی عذر قبول فرمائے گا نہ بدلہ ابو بکر اور زہیر کی حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "ان کا ادنیٰ شخص بھی ایسا کر سکتا ہے "پر ختم ہو گئی اور ان دونوں نے وہ حصہ ذکر نہیں کیا جو اس کے بعد ہے اور نہ ان کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں: " وہ ان کی تلوار کے تھیلے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا، جس کا یہ گمان ہے کہ ہمارے پاس پڑھنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ (ان کی تلوار کی نیام کے ساتھ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا) کے سوا کچھ ہے وہ جھوٹ بولتا ہے، اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں (کی دیت) کا ذکر ہے، اور اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ، عَیر سے لے کر ثَور تک حرم ہے، تو جس نے اس میں کسی قسم کا جرم کیا یا مجرم کو تحفظ و پناہ دی، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن، اس کا کوئی فرض قبول کرے گا، نہ نفل، مسلمانوں کی امان و پناہ یکساں ہے، ان کا کم حیثیت فرد بھی یہ کام کر سکتا ہے، اور جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف نسبت کی یا جس نے اپنے آزاد کرنے والوں کے سوا کی طرف نسبت کی، اس پر اللہ، فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اللہ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں فرمائے گا۔ ابوبکر اور زہیر کی حدیث، ان کا ادنیٰ فرد پناہ دے سکتا ہے پر ختم ہو گئی، ان کی روایت میں بعد والا حصہ نہیں ہے، اس طرح، ان کی روایت میں صحیفہ کے تلوار کی نیام کے ساتھ لٹکنے کا ذکر نہیں ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2127  
´آزاد کرنے والے کے علاوہ دوسرے کو مالک بنانے اور دوسرے کے باپ کی طرف نسبت کرنے والے کا بیان​۔`
یزید بن شریک تیمی کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: جو کہتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ - جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات (زخموں) کے احکام ہیں - کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے ۱؎ علی رضی الله عنہ نے کہا: اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ۲؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2127]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علی رضی اللہ عنہ کی اس تصریح سے روافض اور شیعہ کے اس قول کی واضح طورپر تردید ہورہی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے علی رضی اللہ عنہ کو کچھ ایسی خاص باتوں کی وصیت کی تھی جن کا تعلق دین وشریعت کے اسرار و رموز سے ہے،
کیوں کہ صحیح حدیث میں یہ صراحت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (ما عندنا شئ إلا كتاب الله وهذه الصحيفة عن النبي ﷺ)

2؎:
عیر اور ثور دوپہاڑہیں:
ثور جبل احد کے پیچھے ایک چھوٹا پہاڑ ہے۔
جب کہ عیرذوالحلیفہ (ابیارعلی) کے پاس ہے،
اور یہ دونوں پہاڑمدینہ کے شمالاً جنوباً ہیں،
اورمدینہ کے شرقاً غرباً کالے پتھروں والے دومیدان ہیں،
مملکت سعودیہ نے پوری نشان دہی کرکے مدینہ منورہ کے حرم کی حد بندی محراب نما بُرجیوں کے ذریعے کردی ہے،
 جزاهم الله خيراً۔

3؎:
یعنی اس کی دی ہوئی پناہ بھی قابل احترام ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2127   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2034  
´مدینہ کے حرم ہونے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس صحیفے ۱؎ میں ہے کچھ نہیں لکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ حرام ہے عائر سے ثور تک (عائر اور ثور دو پہاڑ ہیں)، جو شخص مدینہ میں کوئی بدعت (نئی بات) نکالے، یا نئی بات نکالنے والے کو پناہ اور ٹھکانا دے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ کوئی نفل، مسلمانوں کا ذمہ (عہد) ایک ہے (مسلمان سب ایک ہیں اگر کوئی کسی کو امان دیدے تو وہ سب کی طرف سے ہو گی) اس (کو نبھانے) کی ادنی سے ادنی شخص بھی کوشش ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2034]
فوائد ومسائل:
1- حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کوئی خاص باطنی علم یا وصیت نہ تھی۔
جو دیگر لوگوں سے مخفی آپ کو دی گئی ہو آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ نے اس کا اظہار فرما دیا۔


مدینہ منورہ مذکورہ حدود میں اسی طرح حرم اور محترم ہے۔
جیسے کہ مکہ مکرمہ ہے۔
اور بدعت ہر اعتبار سے ضلالت ہے۔
اور بدعتی انسان کا اکرام بہت بڑا شرعی ظلم ہے۔
مدینہ منورہ میں اس عمل کی شناخت از حد زیادہ ہے۔
کیونکہ یہ دین اسلام کا منبع اور مرکز ہے۔


کفار کے مقابلے میں مسلمان ایک ہیں۔
ان کےادنیٰ فرد کی بھی وہی حیثیت ہے۔
جو ان کے اعلیٰ کی ہے۔


آذاد شدہ غلام (مولیٰ) اجازت لے کر بھی اپنی نسبت ولاء فروخت یا تبدیل نہیں کرسکتا۔
یہ عمل حرام ہے۔
حدیث میںز(بغير إذن مواليه) کا ذکر قید اتفاقی ہے۔
احترازی نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2034   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3327  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں ہی بعض لوگوں نے یہ بات پھیلا رکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ کچھ اور علوم بھی ہیں جو صرف آپ کو ہی بتائے گئے ہیں،
اس لیے آپ سے اس کے بارے میں مختلف مواقع پر سوال کیا گیا اور آپ نے بھی مختلف مواقع اور مختلف مناسبتوں سے اس کی تردید اور تکذیب فرمائی،
لیکن اس تصریح کے باوجود بھی بعض لوگوں کا اب بھی یہی دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ قرآن میں بھی کمی کر دی گئی ہے،
جبکہ وہ فرما رہے ہیں ہم بھی وہ کتاب اللہ پڑھتے ہیں جو سب کے پاس ہے،
ہمارے پاس اس سے زائد نہیں ہے اور ان کے صحیفہ کی اشیاء بھی دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہیں۔

حدیث سے مراد،
جرم یا بدعت ہے اور محدث سے مراد مجرم یا بدعتی ہے۔
جس طرح جرم اور بدعت پرسخت وعید ہے،
اسی طرح بدعتی اور مجرم کو تحفظ اور پناہ دینا بھی شدید جرم ہے،
جس کی بنا پر انسان،
اللہ،
فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اور جمہور کے نزدیک صرف سے مراد فرض ہے اور عدل سے نفل،
اللہ کی لعنت سے مراد،
اس کی رحمت سے محرومی ہے اور فرشتوں کی لعنت سےمراد،
اس دعا اور استغفار سے محرومی ہے جو وہ مومنوں کے لیے کرتے ہیں۔
جس کی تفصیل سورہ مومن کی آیات 7تا9 میں ہے۔
اور لوگوں کی لعنت سے مراد،
اس کے لیے رحمت سے محرومی کی بد دعا کرنا ہے۔

مسلمانوں کا امان اور پناہ دینا یکساں اور برابر حیثیت رکھتا ہے کوئی بھی مسلمان کسی بھی کافر کو اگر امان اور تحفظ دے دے تو سب مسلمان اس کے پابند ہوں گے،
جمہور کا یہی قول ہے۔

کسی مسلمان کا اپنے نسب کو چھوڑ کر کسی اورخاندان کی طرف نسبت کرنا یا غلام کا اپنے آزاد کرنے والوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنا بھی انتہائی شدید جرم ہے۔

عَیر اور ثَور جنوب شمال مدینہ میں دو پہاڑ ہیں۔
تفصیل کے لیے (دیکھئے فواد عبدالباق کا حاشیہ مسلم ج2 ص 995تا997)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3327