صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
4. باب تَحْرِيمِ الْجَمْعِ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا فِي النِّكَاحِ:
باب: بھتیجی اور اس کی پھوپھی یا خالہ اور اس کی بھانجی کا جمع کرنا نکاح میں حرام ہے۔
حدیث نمبر: 3442
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " لَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، وَلَا يَسُومُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ، وَلَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلَا عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِئَ صَحْفَتَهَا وَلْتَنْكِحْ، فَإِنَّمَا لَهَا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهَا ".
ہشام نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی آدمی اپنے بھائی کے پیغامِ نکاح پر (اپنے) نکاح کا پیغام نہ دے، اور نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے، اور نہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی اور خالہ کی موجودگی میں نکاح کیا جائے اور نہ کوئی عورت اپنی (مسلمان) بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کی پلیٹ کو (اپنے لیے) انڈیل لے۔ اسے (پہلی بیوی کی طلاق کا مطالبہ کیے بغیر) نکاح کر لینا چاہئے، بات یہی ہے کہ جو اللہ نے اس کے لیے لکھا ہوا ہے وہی اس کا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح کے بعد اپنا پیغام نہ بھیجے، اور نہ ہی اپنے بھائی کے بھاؤ کے بعد بھاؤ لگائے، اور نہ ہی کسی عورت سے نکاح کے بعد اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ سے نکاح کرے اور نہ ہی کوئی عورت نکاح کے لیے پچھلی بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے کہ نتیجتاً اس کا برتن انڈیل دے، وہ نکاح کرے، جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھا ہے، وہ اس کو مل کر رہے گا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 506  
´دوسرے کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . 353- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها، إن رضيها أمسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باہر سے سودا لانے والوں کو سودا خریدنے کے لئے پہلے جا کر نہ ملو اور نہ تم میں سے کوئی آدمی دوسرے سودے پر سودا کرے اور (دھوکا دینے کے لئے جھوٹی) بولی نہ لگاو اور شہری دیہاتی کے لئے نہ بیچے اور اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں (بیچنے کے لئے) دودھ نہ روکو، پھر اگر کوئی شخص اس کے بعد ایسا جانور خرید لے تو اسے دوھنے کے بعد دو میں سے ایک اختیار ہے: اگر اسے پسند ہو تو (سودا باقی رکھ کر) اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور اگر ناپسند ہو تو اس جانور کو کھجوروں کے ایک صاع کے ساتھ واپس کر دے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 506]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2150، ومسلم 11/1515، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے۔
➋ منڈی کے بھاؤ سے ناواقف شخص سے سستا سودا خریدنا تاکہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں پر مہنگے داموں بیچا جائے، حرام ہے۔
➌ جھوٹی بولی لگانا جائز نہیں ہے۔
➍ جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر جانور بیچنا حرام ہے۔ اس میں صریح دھوکا ہے۔
➎ اگر کوئی شخص تھنوں میں دودھ روکے ہوئے جانور کو خریدلے تو پھر اسے اختیار ہے کہ تین دن کے اندر اندر اسے بیچنے والے کو واپس کردے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع (ڈھائی کلو) بھی دے دے۔
◄ جلیل القدر فقیہ صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: جو شخص تھنوں میں دودھ روکی ہوئی بکری خریدے تو اس کے ساتھ کھجور کا ایک صاع بھی واپس کردے۔ [صحيح بخاري: 2149، وصحيح مسلم: 1518]
● معلوم ہوا کہ حدیث بالا قیاس کے خلاف نہیں ہے لہٰذا بعض منکرینِ حدیث کا اس حدیث کے سلسلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنا یا آپ کو غیر فقیہ کہنا غلط ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 353   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2172  
´نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا لگائے اور نہ اس کے دام پر دام لگائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بیع پر بیع کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خریدنے والے سے کہے:
تونے جو چیز خریدی ہے واپس کردے، میں تجھےایسی ہی چیز اس سے کم قیمت پر دوں گا۔
یا بیچنے والے سے کہے:
جو چیز بیچی ہے واپس لےلو، میں تمہیں اس سے زیادہ قیمت دے دوں گا۔
یہ دونوں باتیں منع ہیں کیونکہ ایسی باتوں سے جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے۔

(2)
  سودے پر سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز خرید رہا ہے، وہ کہتا ہے:
میں اتنی قیمت دوں گا۔
دوسرا آدمی اس سے زیادہ قیمت پیش کرنےلگے تا کہ پہلا آدمی دھوکا کھا کر زیادہ قیمت پر خرید لے۔

(3)
  جب خریدار اور فروخت کار ایک قیمت پر متفق ہو جائیں تو تیسرے آدمی کو دخل دینا جائز نہیں، البتہ ان کا سودا طے نہ پا سکے اور بات ختم ہو جائے تو پھر تیسرا آدمی خریدار سے یا بیچنے والے سے بات کرسکتا ہے۔

(4)
  ایسی حرکات سے اجتناب ضروری ہے جن سے مسلمانوں میں جھگڑے پیدا ہوں اور کسی کی حق تلفی ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2172   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1221  
´مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہرکی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جاملے تاکہ بھاؤکے متعلق بیان کرکے اس سے سامان سستے داموں خرید لے،
ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے،
چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازارکی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہوسکتا ہے،
اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1221   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3437  
´تاجروں سے بازار میں آنے سے پہلے جا کر ملنا اور ان سے سامان تجارت خریدنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3437]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
راستے میں مال لانے والے سے مل کر سودا کرنے کا عموما مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔
کہ بازار سے کم قیمت پر خرید لیا جائے۔
اور بازار کا بھائو مالک کے علم میں ہی نہ آئے۔
یہ طریقہ تجارت کےآزادانہ طور پر جاری رہنے میں رکاوٹ ہے۔
مارکیٹ کے عوامل میں اس طرح کی مداخلت ممنوع ہے۔
دوسرے مسلمان بھائی کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
جو مذموم ہے۔
اس لئے ممانعت کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا کہ اگر راستے میں سودا طے ہو اور اس کے بعد بیچنے والے کو پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔
تو اسے بیع واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3437   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3442  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

اصول یا ضابطہ یہ ہے کہ جن دو عورتوں میں سے ایک مرد فرض کرنے کی صورت میں اس کا دوسری سے نکاح نہ ہو سکے ان کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ہے،
اس لیے خالہ اور بھانجی،
بھتیجی اور پھوپھی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا خواہ یہ رشتہ نسب و خون سے ہو یا دودھ سے،
خوارج اور بعض شیعہ کے سوا تمام امت کا اس پر اتفاق ہے،
پھوپھی باپ کی بہن ہو یا دادا اور اس کے اوپر کے اعتبار سے اسی طرح خالہ ماں کی بہن ہو یا نانی اور اس کے اوپر کے اعتبار سے،
خوارج اور شیعہ نے قرآنی آیت ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾ (مذکورہ عورتوں کے سوا تمھارے لیے حلال ہیں)
۔
(نساء آیت نمبر24)
سے استدلال کیا ہے حالانکہ قرآن مجید کی دوسری آیت میں ﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ﴾ (مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو۔
)
(لبقرۃ آیت نمبر241)
کے ذریعہ مشرکات سے نکاح حرام کیا جا چکا ہے آیت عموم کی تخصیص کے بعد خبر واحد سے تخصیص احناف کے نزدیک بھی جائز ہے جبکہ باقی آئمہ کے نزدیک بلا قید آیت کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے اور یہ حدیث تو کئی صحابہ سے مروی ہے۔

اگر ایک مرد کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے چکا ہے اور اس کے ولی نے اس کی طرف اپنے میلان کا اظہار کر دیا ہے یا ہاں کردی ہے،
تو پھر کسی دوسرے مرد کے لیے پیغام دینا جائز نہیں،
اس طرح اگر ایک انسان کا دوسرے سے بھاؤ طے ہو رہا ہے یا طے ہو چکا ہے تو دوسرے کا دخل درست نہیں ہے،
ایک مرد کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کی پہلی بیوی موجود ہے،
تو اس دوسری عورت کے لیے پہلی بیوی کی طلاق کا مطالبہ جائز نہیں ہے،
کیونکہ اس طرح پہلی بیوی ظاہری اسباب کی روسے نان و نفقہ گھر بار اور خاوند سے محروم ہو سکتی ہے،
اس طرح اس کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے،
یہ دوسری شادی کر لے اس کی قسمت کا اس کو مل کر رہےگا۔
اس کے لیے پہلی کو نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3442