صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ -- رضاعت کے احکام و مسائل
1. باب يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلاَدَةِ:
باب: جو رشتے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3570
وحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
ابن جریج نے ہمیں خبر دی، کہا: مجھے عبداللہ بن ابوبکر نے اسی سند سے ہشام بن عروہ کی حدیث کے مانند خبر دی
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3570  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
رَضَاعَ اور رِضَاعَت:
راکے زبراورزیر دونوں طرح سے ہے،
اہل تہامہ کے نزدیک (سَمِعَ)
سے ہے اور اہل نجد کے نزدیک (ضَرَبَ)
سے،
(رَضَعَ الصَّبِيُّ)
کا معنی ہو گا:
بچے نے عورت کا پستان چوسا۔
فوائد ومسائل:
عورت کے پستان کے دودھ کی مدت رضاعت کے دوران بچہ کے پیٹ میں پہنچنا،
خواہ بچہ خود چوسے یا اس کے حلق میں دودھ ڈالا جائے یا ناک کے ذریعہ اس کے پیٹ میں داخل کردیا جائے۔
ان تینوں صورتوں میں رضاعت ثابت ہو گی۔
ماں کے علاوہ جو عورت دودھ مدت رضاعت میں پلاتی ہے وہ چونکہ بچے کی نشوونما اپنے دودھ سے کرتی ہے اور اس کے گوشت،
ہڈیوں اور خون میں اس کے دودھ کا دخل ہوتا ہے اور وہ اس کے پالنے وپوسنے اور پرورش وپرداخت میں ماں کی طرح پیارومحبت سے تمام تکالیف اور مصائب برداشت کرتی ہے۔
اس لیے وہ بھی ماں کے حکم میں ہوتی ہے اور اس کی اولاد بچے کے بہن بھائی بن جاتے ہیں اور اس کا خاوند اور اس کے عزیزواقارب اس کے ماں،
باپ کے رشتہ داروں کے قائم مقام ہو جاتے ہیں اور رضاعت کا حکم نسب وخون والا ہو جاتا ہے۔
اس لیے امت کے نزدیک بالاتفاق رضاعی ماں،
بہن،
بیٹی،
پھوپھی،
خالہ،
بھتیجی،
بھانجی اور چچا ماموں رضاعی بیٹے کی بیوی اور رضاعی باپ کی بیوی محرمات میں شمار ہوں گے۔
اگرچہ رضاعی بیٹے کی بیوی اور رضاعی باپ کی بیوی میں رضاعت ومصاہرت دونوں کا دخل ہے یعنی اس کے رضاعی بیٹے کی بیوی ہے یا رضاعی باپ کی بیوی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نسب اور صہر سے حرام ہونے والے تمام اصول اور فروع رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3570