صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ -- رضاعت کے احکام و مسائل
7. باب رَضَاعَةِ الْكَبِيرِ:
باب: بڑی عمر کی رضاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3601
وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، جَمِيعًا عَنِ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ كَانَ مَعَ أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأَهْلِهِ فِي بَيْتِهِمْ فَأَتَتْ تَعْنِي ابْنَةَ سُهَيْلٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت: إِنَّ سَالِمًا قَدْ بَلَغَ مَا يَبْلُغُ الرِّجَالُ وَعَقَلَ مَا عَقَلُوا، وَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّ فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْضِعِيهِ، تَحْرُمِي عَلَيْهِ وَيَذْهَبِ الَّذِي فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ "، فَرَجَعَتْ، فقَالَت: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُهُ، فَذَهَبَ الَّذِي فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ.
ایوب نے ابن ابی مُلیکہ سے، انہوں نے قاسم سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سالم رضی اللہ عنہ، ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھے ان کے گھر ہی میں (قیام پذیر) تھے۔ تو (ان کی اہلیہ) یعنی (سہلہ) بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: سالم مردوں کی (حد) بلوغت کو پہنچ چکا ہے اور وہ (عورتوں کے بارے میں) وہ سب سمجھنے لگا ہے جو وہ سمجھتے ہیں اور وہ ہمارے ہاں (گھر میں) آتا ہے اور میں خیال کرتی ہوں کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اس سے کچھ (ناگواری) ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم اسے دودھ پلا دو، اس پر حرام ہو جاؤ گی اور وہ (ناگواری) دور ہو جائے گی جو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں ہے۔" چنانچہ وہ دوبارہ آپ کے پاس آئی اور کہا: میں نے اسے دودھ پلوا دیا ہے تو (اب) وہ ناگواری دور ہو گئی جو ابوحذیفہ کے دل میں تھی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مولیٰ سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ ان کے گھر میں رہائش پذیر تھا، تو ان کی بیوی (سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی۔ سالم مردوں کی حد بلوغ کو پہنچ گیا ہے اور جن باتوں کو وہ سمجھتے ہیں ان کو سمجھنے لگا ہے، اور وہ ہمارے ہاں آتا ہے اور میں خیال کرتی ہوں، ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دل میں اس سے کراہت محسوس کرتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کو دودھ پلا دے اور اس کے لیے محرم بن جانا اور ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل کی کراہت ختم ہو جائے گی۔ میں واپس آ گئی اور میں نے اس کو دودھ پلا دیا، اور ابو حذیفہ کے دل سے نفرت نکل گئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1943  
´بڑے آدمی کے دودھ پینے سے حرمت کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! سالم کے ہمارے پاس آنے جانے کی وجہ سے میں ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر ناگواری محسوس کرتی ہوں، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سالم کو دودھ پلا دو، انہوں نے کہا: میں انہیں دودھ کیسے پلاؤں گی وہ بڑی عمر کے ہیں؟! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں، آخر سہلہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1943]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ موقف تھا کہ دودھ جس عمر میں بھی پیا جائے اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے لیکن دوسری امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے اس سے اتفاق نہیں کیا جیسے اگلے باب میں آرہا ہے۔ (دیکھیئے حدیث: 1947)

(2)
حضرت سالم حضرت ابوحذیفہ کے منہ بولے بیٹے تھے جسے انہوں نے اور ان کی بیوی حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا نے پالا تھا۔
جب اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کا رواج ختم فرما دیا تو انہیں پردہ کرنے میں مشکل محسوس ہوئی کیونکہ ان کی رہائش اس گھر میں تھی۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ سالم کو دودھ پلا دیں تاکہ پردے کی پابندی اٹھ جائے۔

(3)
امہات المومنین نے اس حکم کو حضرت سالم کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت بعض علماء نے اس قسم کے حالات میں اسے جائز رکھا ہے جس قسم کے حالات حضرت سالم اور حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو درپیش تھے۔
احتیاط اسی میں ہے کہ اس رضاعت کو بچپن کی رضاعت کا حکم نہ دیا جائے۔
واللہ أعلم۔
 امام بخاری  نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (صحیح البخاري، النکاح، باب من قال:
لا رضاع بعد الحولین ....، حدیث: 5102)

امام ابن تیمیہ اور امام شوکانی  اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں تو نہیں مگر کہیں خاص اضطراری احوال میں اس پر عمل کی گنجائش ہے۔ (نیل الأوطار: 6؍353)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1943