صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ -- رضاعت کے احکام و مسائل
16. باب اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ:
باب: باکرہ سے نکاح مستحب ہونے کابیان۔
حدیث نمبر: 3641
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيَّ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي فَأَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ لِي: " يَا جَابِرُ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " مَا شَأْنُكَ "، قُلْتُ: أَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ فَحَجَنَهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: " ارْكَبْ "، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَكُفُّهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " أَتَزَوَّجْتَ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فقَالَ: " أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا "، فَقُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ، قَالَ: " فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ "، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: " أَمَا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ، ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْتُ الْمَسْجِدَ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فقَالَ: " الْآنَ حِينَ قَدِمْتَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَدَعْ جَمَلَكَ وَادْخُلْ، فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ "، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لِي أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ فِي الْمِيزَانِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَلَمَّا وَلَّيْتُ، قَالَ: " ادْعُ لِي جَابِرًا "، فَدُعِيتُ فَقُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، فقَالَ: " خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ ".
وہب بن کیسان نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلا تھا، میرے اونٹ نے میری رفتار سست کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: "جابر!" میں نے عرض کی: جی۔ آپ نے پوچھا: "کیا معاملہ ہے؟" میں نے عرض کی: میرے لیے میرا اونٹ سست پڑ چکا ہے اور تھک گیاہے، اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ آپ (اپنی سواری سے) اترے اور اپنی مڑے ہوئے سرے والی چھڑی سے اسے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: "سوار ہو جاؤ۔" میں سوار ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے خود کو دیکھا کہ میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی اونٹنی) سے (آگے بڑھنے سے) روک رہا ہوں۔ پھر آپ نے پوچھا: "کیا تم نے شادی کر لی؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری سے یا دوہاجو سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو ہے۔ آپ نے فرمایا: " (کنواری) لڑکی سے کیوں نہ کی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے، وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی۔" میں نے عرض کی: میری (چھوٹی) بہنیں ہیں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی ڈھارس بندھائے، ان کی کنگھی کرے اور ان کی نگہداشت کرے۔ آپ نے فرمایا: "تم (گھر) پہنچنے والے ہو، جب پہنچ جاؤ تو احتیاط اور عقل مندی سے کام لینا۔" پھر پوچھا: "کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں، چنانچہ آپ نے وہ (اونٹ) مجھ سے ایک اوقیہ (چاندی کی قیمت) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے اور میں صبح کے وقت پہنچا، مسجد میں آیا تو آپ کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ابھی پہنچے ہو؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ چھوڑو اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کرو۔" میں مسجد میں داخل ہوا، نماز پڑھی، پھر (آپ کے پاس) واپس آیا تو آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ (چاندی) تول دیں، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے وزن کیا، اورترازو کو جھکایا (اوقیہ سے زیادہ تولا۔) کہا: اس کے بعد میں چل پڑا، جب میں نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا: "جابر کو میرے پاس بلاؤ۔" مجھے بلایا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا: اب آپ میرا اونٹ (بھی) مجھے واپس کر دیں گے۔ اور مجھے کوئی چیز اس سے زیادہ ناپسند نہ تھی (کہ میں قیامت وصول کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اونٹ بھی واپس لے لوں۔) آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ لے لو اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا اونٹ سست رفتار چلنے لگا، میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جابر ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا، میرا اونٹ آہستہ آہستہ چلنے لگا ہے وہ تھک گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور اسے خمیدہ چھڑی سے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: سوار ہو جا تو میں سوار ہو گیا، اور میں اپنے اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ گے بڑھنے سے روک رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا، بلکہ وہ ثیب (بیوہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوشیزہ سے کیوں نہیں، تم باہمی اٹھکیلیاں کرتے؟ میں نے عرض کیا، میری بہنیں ہیں، اس لیے میں نے چاہا ایسی عورت سے شادی کروں جو انہیں اپنے دامن میں لے، ان کی کنگھی پٹی کرے اور ان کی دیکھ بھال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم پہنچ رہے ہو، تو جب گھر پہنچو، عقل اور احتیاط سے کام لینا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے بعد) جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسے ایک اوقیہ (چالیس درہم) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ) پہنچے اور صبح کو میں بھی (اپنے محلہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں مسجد میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے مسجد کے دروازہ پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابھی پہنچے ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے اونٹ کو چھوڑ دے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ۔ میں نے مسجد میں جا کر نماز پڑھی اور پھر واپس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مجھے چالیس درہم تول دے، بلال نے مجھے چاندی تول دی اور ترازو جھکایا، میں لے کر چل دیا۔ جب میں نے پشت پھیری، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جابر کو بلاؤ۔ مجھے بلایا گیا تو میں نے سوچا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اونٹ واپس کر دیں گے، اور مجھے اس سے زیادہ ناپسند کوئی اور چیز نہ تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا اونٹ لے لو، اور تمہیں اس کی قیمت بھی دی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3641  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہی ایک اونٹ تھا جس سے وہ پانی ڈھونے کا کام لیتے تھے،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتکرار واصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت قیمت دی،
اس لیے اب اس کو واپس لینا پسند نہیں تھا اور یہ خطرہ بھی تھا کہ اس کی سست رفتاری لوٹ نہ آئے،
یا وہ سمجھتے تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کےساتھ قیمت بھی دیں گے اور دونوں چیزیں لینا مناسب نہیں ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جو ایک قیراط زیادہ دلوایا تھا وہ اس کو ہمیشہ اپنی تھیلی میں رکھتے تھے حتی کہ وہ واقعہ حرہ میں ضائع ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3641