صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ -- رضاعت کے احکام و مسائل
16. باب اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ:
باب: باکرہ سے نکاح مستحب ہونے کابیان۔
حدیث نمبر: 3642
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حدثنا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حدثنا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا فِي مَسِيرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ إِنَّمَا هُوَ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ، قَالَ: فَضَرَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَ قَالَ: نَخَسَهُ أُرَاهُ، قَالَ بِشَيْءٍ كَانَ مَعَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَقَدَّمُ النَّاسَ يُنَازِعَنِي حَتَّى إِنِّي لِأَكُفُّهُ، قَالَ: فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَبِيعَنْيهِ بِكَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ "، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " أَتَبِيعَنْيهِ بِكَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ "، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ وَقَالَ لِي: " أَتَزَوَّجْتَ بَعْدَ أَبِيكَ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " ثَيِّبًا أَمْ بِكْرًا "، قَالَ: قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: " فَهَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُضَاحِكُكَ وَتُضَاحِكُهَا، وَتُلَاعِبُكَ وَتُلَاعِبُهَا "، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: فَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ: افْعَلْ كَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ.
ابونضرہ نے ہمیں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اور میں ایک پانی ڈھونے والے اونٹ پر (سوار) تھا۔ اور وہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ تھا۔ کہا: آپ نے اسے۔۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: اپنے پاس موجود کسی چیز سے۔۔ مارا، یا کہا: کچوکا لگایا، کہا: اس کے بعد وہ لوگوں (کے اونٹوں) سے آگے نکلنے لگا، وہ مجھ سے کھینچا تانی کرنے لگا حتیٰ کہ مجھے اس کو روکنا پڑتا تھا۔ کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم مجھے یہ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف فرمائے!" کہا: میں نے عرض کی۔ اللہ کے نبی! وہ آپ ہی کا ہے۔ آپ نے (دوبارہ) پوچھا: "کیا تم مجھے وہ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہارے گناہ معاف فرمائے!" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہے۔ کہا: اور آپ نے مجھ سے (یہ بھی) پوچھا: "کیا اپنے والد (کی وفات) کے بعد تم نے نکاح کر لیا ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "دوہاجو (شوہر دیدہ) سے یا دوشیزہ سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو سے۔ آپ نے فرمایا: "تم نے کنواری سے کیوں نہ شادی کی، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی اور تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے؟" ابونضرہ نے کہا: یہ ایسا کلمہ تھا جسے مسلمان (محاورتا) کہتے تھے کہ ایسے ایسے کرو، اللہ تمہارے گناہ بخش دے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں چل رہے تھے اور میں پانی پلانے والے اونٹ پر سوار تھا۔ جو سب لوگوں کے پیچھے تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی چیز سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی مارا یا کچوکا لگایا تو وہ اس کے بعد سب لوگوں سے آ گے نکلنے لگا۔ وہ میرے روکنے پر مجھ سے کشمکش کرتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تم مجھے یہ اتنی اتنی قیمت پر دیتے ہو، اور اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے یہ اتنی اتنی قیمت پر بیچتے ہو؟ اللہ تمہیں معاف فرمائے۔ میں نے عرض کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا اپنے باپ کے بعد تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: بیوہ سے یا کنواری سے؟ میں نے عرض کیا، بیوہ سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے شادی کیوں نہ کی تم اس سے خوش طبعی کرتے وہ تم میں سے خوش لگی کرتی، وہ تم سے دل لگی کرتی تم اس سے دل لگی کرتے؟ ابو نضرہ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ محاورہ اور روزمرہ کا معمول تھا یا تکیہ کلام تھا۔ وہ کہتے یہ یہ کام کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3642  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ نکاح سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں مجلس نکاح قائم کرنے اور اس میں دوست واحباب یاعلماء اور مشائخ کو دعوت دینے کا رواج اور اہتمام نہ تھا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا،
تم نےشادی کرلی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خصوصی تعلق اور رابطہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی خبر سن کر ان کے لیے دعائے خیر بھی کی،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک کوئی محبوب اورمحترم اور با برکت شخصیت نہ تھی۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ نہیں فرمایا:
بھائی تم نے مجھے کیوں دعوت نہ دی۔
اگر یہ شرعاً مطلوب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اہتمام کی تلقین وتاکید فرماتے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم یا کپڑوں پر زرد رنگ کی چھاپ دیکھ کر پوچھا:
اور ان کےبتانے پر اس کو برکت کی دعا دی،
کیونکہ شریعت میں اصل مطلوب نکاح میں سہولت اور آسانی پیداکرنا ہے اور فریقین کوخرچہ کی مشقت سے بچانا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3642