صحيح البخاري
كِتَاب الْكُسُوف -- کتاب: سورج گہن کے متعلق بیان
17. بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ الْقَمَرِ:
باب: چاند گرہن کی نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1063
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَسْجِدِ وَثَابَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ فَانْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَإِذَا كَانَ ذَاكَ فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ وَذَاكَ"، أَنَّ ابْنًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: فَقَالَ النَّاسُ فِي ذَاكَ.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے (بڑی تیزی سے) مسجد میں پہنچے۔ صحابہ بھی جمع ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن بھی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور ان میں گرہن کسی کی موت پر نہیں لگتا اس لیے جب گرہن لگے تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو جب تک یہ صاف نہ ہو جائے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات (اسی دن) ہوئی تھی اور بعض لوگ ان کے متعلق کہنے لگے تھے (کہ گرہن ان کی موت پر لگا ہے)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1063  
1063. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج گہن ہوا تو آپ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں پہنچ گئے۔ لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ جب سورج روشن ہو گیا تو آپ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کے مرنے کی بنا پر بےنور نہیں ہوتے۔ جب ایسا ہو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو حتی کہ گرہن ختم ہو جائے۔ چونکہ نبی ﷺ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تھا جس کی بنا پر لوگوں نے چہ میگوئیاں کرنا شروع کر دی تھیں، اس لیے آپ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1063]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں صاف چاند گرہن کا ذکر موجود ہے اور یہی مقصد باب ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1063   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1063  
1063. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج گہن ہوا تو آپ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں پہنچ گئے۔ لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ جب سورج روشن ہو گیا تو آپ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کے مرنے کی بنا پر بےنور نہیں ہوتے۔ جب ایسا ہو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو حتی کہ گرہن ختم ہو جائے۔ چونکہ نبی ﷺ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تھا جس کی بنا پر لوگوں نے چہ میگوئیاں کرنا شروع کر دی تھیں، اس لیے آپ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1063]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابوبکرہ ؓ کی حدیث کو پہلے اختصار پھر تفصیل سے بیان کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
جب انہیں گرہن لگے تو نماز پڑھو۔
اس سے امام بخاری ؒ نے خسوف قمر کے موقع پر نماز کو ثابت کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ سورج اور چاند سے کسی کو بھی گرہن لگ جائے تو نماز پڑھو۔
(2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ رات کے وقت لوگوں کو آنے جانے میں مشقت ہوتی ہے، اس لیے چاند گرہن کے موقع پر نماز پڑھنا مشروع نہیں، لیکن ان احادیث کی روشنی میں مذکورہ موقف محل نظر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1063