صحيح مسلم
كِتَاب اللِّعَانِ -- لعان کا بیان
1. باب:
باب:
حدیث نمبر: 3746
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمْرَةِ مُصْعَبٍ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَمَضَيْتُ إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي، قَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ صَوْتِي، قَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ادْخُلْ فَوَاللَّهِ مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةً مُتَوَسِّدٌ وِسَادَةً حَشْوُهَا لِيفٌ، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَنْ لَوْ وَجَدَ أَحَدُنَا امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6، " فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ: " أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ "، قَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ دَعَاهَا فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا: " أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ "، قَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ، إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا ".
3746. عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت معصب رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ امارت میں مجھ سے لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا، کیا ان دونوں کو جدا کر دیا جائے گا؟ کہا: (اس وقت) مجھے معلوم نہ تھا کہ (جواب میں) کیا کہوں، چنانچہ میں مکہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گیا، میں نے غلام سے کہا: میرے لیے اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا: وہ دوپہر کی نیند لے رہے ہیں۔ (اسی دوران میں) انہوں نے میری آواز سن لی تو انہوں نے پوچھا: ابن جبیر ہو؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اندر آ جاؤ، اللہ کی قسم! تمہیں اس گھڑی کوئی ضرورت ہی (یہاں) لائی ہے۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ ایک گدے پر لیٹے ہوئے تھے اور کھجور کی چھال بھرے ہوئے ایک تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کی: ابوعبدالرحمان! کیا لعان کرنے والوں کو آپس میں جدا کر دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! ہاں، اس کے بارے میں سب سے پہلے فلاں بن فلاں (عویمر بن حارث عجلانی) نے سوال کیا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے پائے تو وہ کیا کرے؟ اگر وہ بات کرے تو ایک بہت بڑے معاملے (قذف) کی بات کرے گا اور اگر وہ خاموش رہے تو اسی جیسے (ناقابلِ برداشت) معاملے میں خاموشی اختیار کرے گا۔ کہا: اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا اور سے کوئی جواب نہ دیا، پھر جب وہ اس (دن) کے بعد آپ کے پاس آیا تو کہنے لگا: میں نے جس کے بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں یہ آیات نازل کر دی تھیں: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ﴾ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے ان کی تلاوت فرمائی، اسے وعظ اور نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عورت) کو بلوایا۔ اسے وعظ اور نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! وہ (خاوند) جھوٹا ہے۔ اس پر آپ نے مرد سے (لعان کی) ابتدا کی، اس نے اللہ (کے نام) کی چار گواہیاں دیں کہ وہ سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ (کہا) کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوسری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دی۔ تو اس نے اللہ (کے نام) کی چار گواہیاں دیں کہ وہ (خاوند) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ (کہا) کہ اگر وہ (خاوند) سچوں میں سے ہے، تو اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کو الگ کر دیا-
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے مصعب ابن زبیر کے دور حکومت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی؟ تو پتہ نہ چلا، کہ میں اس کا کیا جواب دوں، اس لیے میں مکہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے گھر کی طرف چلا، اور (جا کر) غلام سے کہا، میرے لیے اجازت طلب کرو، اس نے کہا، وہ قیلولہ کر رہے ہیں، تو انہوں نے میری آواز سن لی، پوچھا، ابن جبیر ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں، کہا، آجاؤ۔ اللہ کی قسم! تم اس وقت کسی ضرورت کے تحت ہی آئے ہو۔ تو میں اندر داخل ہو گیا۔ تو وہ ایک آتھر (چٹائی) پر لیٹے ہوئے تھے، اور ایک تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، اے ابو عبدالرحمان! کیا لعان کرنے والوں میں تفریق پیدا کر دی جائے گی؟ انہوں نے (حیرت و استعجاب سے) کہا، سبحان اللہ! ہاں، سب سے پہلے اس مسئلہ کے بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا۔ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! بتائیے، ہم میں سے کوئی اگر بیوی کو بے حیائی کا کام کرتے ہوئے پائے، تو کیا کرے؟ اگر وہ کسی سے کلام کرے گا، تو انتہائی ناگوار بات کرے گا اور اگر خاموشی اختیار کرے گا تو بھی ایسی ہی صورت حال ہو گی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے، اور اسے کوئی جواب نہ دیا تو وہ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی، جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے آپ سے دریافت کیا تھا، میں اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیات اتاریں: اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں (آیت: 6 سے لے کر آیت: 9 تک)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب (حد قذف، اَسی کوڑے) آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا، نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، میں نے اس پر جھوٹ نہیں باندھا، پھر آپ نے اس کی بیوی کو بلایا اور اسے نصیحت و تذکیر کی، اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب (سنگسار کرنا) آخرت کے مقابلہ میں ہلکا ہے عورت نے کہا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ وہ (خاوند) جھوٹا ہے تو آپ نے مرد سے ابتدا فرمائی۔ اس نے چار مرتبہ گواہی دی، اللہ کی قسم، میں سچا ہوں، اور پانچویں بار گواہی دی اگر میں جھوٹوں میں سے ہوں، تو مجھ پر اللہ کی پھٹکار۔ پھر دوسری بار، عورت کو بلایا، تو اس نے اللہ کی قسم اٹھا کر چار گواہیاں دیں، میرا خاوند جھوٹا ہے، اور پانچویں شہادت یہ دی اگر وہ سچا ہو تو اس پر (مجھ پر) اللہ کا عذاب نازل ہو، پھر آپ نے ان کے درمیان تفریق پیدا کر دی۔ حضرت مصعب بن زبیر اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں عراق کے گورنر تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 371  
´لعان کا بیان`
«. . . 232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 371]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5315، ومسلم 8/1494، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لعان کیلئے دیکھئے: حدیث سابق: 6
➋ لعان شدہ عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوتی ہے۔ اس بچے کو اس عورت کے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا لہٰذا یہ بچہ لعان والے باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا اور نہ اس کا باپ اس کا وارث ہوتا ہے بلکہ اس کی ماں عصبہ ہوتی ہے۔
➌ صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
➍ جو شخص اپنی بیوی سے لعان کر تا ہے اور اس پر زنا کی تہمت لگا تا ہے تو اس شخص پر حد قذف نہیں لگتی۔
➎ قول راجح میں زنا کا عینی گواہ قاذف کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ چار کا نصاب بھی پورا نہ ہو۔
➏ حاکم پر لازم ہے کہ شرعی احکامات طاقت سے نافذ کرے۔
➐ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور لعان نہ کرے تو اسے (شوہر کو) کوڑے لگیں گے۔ دیکھئے: [التمهيد 15/38 بحواله ابن ابي شيبه عن الشعبي وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 232   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2069  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2069]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لعان سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ مرد اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔

(2)
  لعان کی صورت میں عورت کا خاوند بچے کا باپ نہیں کہلائے گا۔
بچہ اس مرد کا وارث بھی نہیں ہوگا، البتہ عورت کےماں ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لیے وہ اپنی ماں اور ننھیالی رشتے داروں کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2069   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1202  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1202]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لعان کا حکم آیت کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء﴾ (النور: 6) میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو،
اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2257  
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2257]
فوائد ومسائل:
لعان کی صورت میں شوہرکوحق سے کچھ نہیں ملے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2257