صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
2. باب بُطْلاَنِ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَالْبَيْعِ الَّذِي فِيهِ غَرَرٌ:
باب: کنکری کی بیع اور دھوکے کی بیع باطل ہے۔
حدیث نمبر: 3808
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے کی بیع اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1230  
´بیع غرر (دھوکہ) کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1230]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیع غرر:
معدوم ومجہول کی بیع ہے،
یاایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1230   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3376  
´دھوکہ کی بیع منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ کی بیع سے روکا ہے۔ عثمان راوی نے اس حدیث میں «والحصاة» کا لفظ بڑھایا ہے یعنی کنکری پھینک کر بھی بیع کرنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3376]
فوائد ومسائل:
(بیع الحصاۃ) کنکری پھینک کر بیع کرنا یعنی خریدار یا فروخت کرنے والا کہے کہ جب میں کنکری پھینک دوں گا تو بیع پختہ ہوجائے گی۔
یا جس چیز پر کنکری پڑی وہ دے دوں گا یا لے لوںگا خریدوفروخت کا یہ انداز ممنوع ہے۔
آج کل بھی ایسا جوا رائج ہے۔
کہ آپ کا نشانہ جس چیز پر لگ جائے گا۔
اتنی قیمت میں وہ آپ کی ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3376   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3808  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بیع الحصاۃ،
اس کی تین صورتیں ہیں:
(1)
کپڑوں کے ڈھیر یا تھانوں پر میں کنکر پھینکتا ہوں،
جس پر وہ گرے وہ اتنی قیمت میں تیرا ہو گا یا میں یہاں سے کنکر پھینکتا ہوں جہاں گرے گا وہاں تک زمین،
اس قیمت پر تیری ہو گی۔
(2)
یہ چیز میں تمہیں اتنے میں فروخت کرتا ہوں،
جب میں یہ کنکر پھینک دوں گا۔
تو بیع پختہ ہو جائے گی اور تمہارا اختیار ختم ہو جائے گا۔
(3)
جب میں اس چیز پر کنکر مار دوں گا،
تو یہ تیری ہو گی۔
بہرحال ان تینوں صورتوں میں غرر اور دھوکا اور جوا ہے،
اس لیے منع ہے۔
امام شافعی نے بیع ملامسہ،
بیع منابذہ اور بیع حصاۃ کو اس لیے منع قرار دیا ہے کہ ان میں ایجاب و قبول نہیں ہے،
یعنی بائع کہے میں نے بیچ دی اور مشتری کہے میں نے خرید لی،
اس پر قیاس کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں بیع تعاطی بھی جائز نہیں ہے جس کی صورت یہ ہے کہ بائع کہے میں یہ چیز اتنے میں دیتا ہوں،
مشتری رقم ادا کر کے وہ چیز لے لے،
یا خریدار بائع کو کہتا ہے،
میں اس چیز کی اتنی رقم دیتا ہوں،
تو وہ اٹھا کر چیز اس کو دے دے۔
تو یہاں زبان سے ایجاب و قبول نہیں ہوا،
کہ میں دیتا ہوں،
میں لیتا ہوں،
حالانکہ فعلاً تو یہاں ایجاب و قبول ہو گیا ہے اور اس میں جہالت اور غرر کی کوئی صورت بھی نہیں ہے،
اس لیے باقی ائمہ کے نزدیک یہ جائز ہے اور لوگوں کا یہی عرف اور رواج ہے جو ہر جگہ جاری ہے۔
بیع غرر:
جس میں دھوکا اور فریب ہو،
یہ ایک ایسا اصول اور ضابطہ ہے جس کے تحت بے شمار صورتیں آ جاتی ہیں مثلا بھگوڑے غلام کی بیع،
بھگوڑے جانور کی بیع،
حیوان کے پیٹ کے حمل کی بیع،
ہوا میں اڑنے والے پرندوں کے شکار کی بیع،
پانی میں مچھلیوں کے لیے جال لگانے کی بیع،
ہاں معمولی غرر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
مثلا حمام میں نہانا اور ایک معین رقم ادا کرنا،
ایک ماہ کے لیے کوئی چیز کرایہ پر دینا،
حالانکہ ماہ میں ایک دن کی کمی و بیشی ہوتی ہے۔
اور ہوٹل میں فی آدمی کے کھانے پر یکساں رقم ادا کرنا وغیرہ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3808