صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
14. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ إِلاَّ فِي الْعَرَايَا:
باب: تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا حرام ہے مگر عریہ میں درست ہے۔
حدیث نمبر: 3884
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا كَيْلًا ".
عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبیداللہ نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں رخصت دی کہ اس (کے پھل) کا اندازہ کرتے ہوئے اسے کھجور کی ماپی ہوئی مقدار کے عوض فروخت کر دیا جائے
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کو، ان کے پھل کا اندازہ کر کے چھوہاروں کے ناپ کے عوض بیچنے کی رخصت دی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 498  
´اندازے سے مال بیچنے کا حکم`
«. . . 237- وبه: عن ابن عمر عن زيد بن ثابت: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے مالک کو اجازت دی ہے کہ وہ اندازے سے (اُکا) انہیں بیچ سکتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 498]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2188، و مسلم 1539/60، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 157
➋ اگر دکاندار اور گاہک دونوں راضی ہوں تو مال کو اندازے سے یعنی اُکا بیچا جا سکتا ہے۔ ➌ دین اسلام مکمل دین ہے جس میں زندگی کے ہر مرحلے اور مسئلے کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ والحمد للہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 237   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2269  
´عرایا کی بیع یعنی کھجور کے درخت کو انداز ے سے خشک کھجور کے بدلے خریدنے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی بیع میں اجازت دی ہے کہ اندازہ سے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خرید و فروخت کی جائے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے کچھ درخت اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے اندازہ کر کے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2269]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام قانون یہی ہے کہ کھجور کے بدلے میں کھجور کا تبادلہ دست بدست اور برابر برابر ہونا چاہیے لیکن عرایا کا مسئلہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے۔

(2)
امام مالک رحممۃ اللہ علیہ نے عرایا کی تفسیر یوں کی ہے:
عریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کھجور کا ایک درخت (پھل کھانے کے لیے)
دیتا ہے، پھر اس کے (بار بار)
باغ میں آنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ (اسے دیا ہوا وہ)
درخت خشک کھجوروں عوض خرید لے۔ (صحیح البخاري، البیوع، باب تفسیر العرایا، قبل حدیث: 2192)
 اس کا طریقہ یہ کہ درخت کے پھل کا اندازہ لگایا جائے کہ خشک ہو کر اتنے من ہوگا، پھر اتنے من خشک کھجوریں اسے دے کر درخت واپس لے لیا جائے۔
اس صورت میں خشک کھجوروں کےعوض تازہ کھجوریں (درخت پر لگی ہوئی)
خریدی گئی ہیں اور خشک کھجوریں ماپ تول کر دی گئی ہیں۔
یہ جائز ہے بشرطیکہ ان کی مقدار پانج وسق (بیس من)
سے کم ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2269