صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
17. باب كِرَاءِ الأَرْضِ:
باب: زمین کو کرایہ پر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3921
وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: سَأَلَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى عَطَاءً ، فَقَالَ: أَحَدَّثَكَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ، فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ لِيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلَا يُكْرِهَا "، قَالَ: نَعَمْ.
عبدالملک نے ہمیں عطاء سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس زمین ہو، وہ اسے خود کاشت کرے، اگر وہ اس میں کاشتکاری کی استطاعت نہ پائے اور عاجز ہو تو (بہتر ہے) اپنے کسی مسلمان بھائی کو عاریتا دے دے اور اس کے ساتھ زمین کی اجرت کا معاملہ نہ کرے
سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے سوال کیا، کیا حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے آپ کو یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو، وہ اس کی کاشت کرے یا بھائی کو کاشت کرنے کے لیے دے دے (کہ وہ پیداوار حاصل کر لے) اور اس کو کرایہ یا اجرت پر نہ دے؟ عطاء نے کہا، جی ہاں سنائی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2451  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں، جنہیں وہ تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زائد زمینیں ہوں تو ان میں وہ یا تو خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے، اگر یہ دونوں نہ کرے تو اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2451]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اپنے پاس رکھے اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین خالی پڑی رہنے دے۔
اور ظاہر ہے کہ خالی پڑی رہنے کی صورت میں زمین سےکچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
توکیا یہ بہتر نہیں کہ کسی کوفائدہ اٹھانے دے۔
یہ سخاوت اورافضل عمل کی ترغیب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2451