صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
10. باب الأَمْرِ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَبَيَانِ تَحْرِيمِ اقْتِنَائِهَا إِلاَّ لِصَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ أَوْ مَاشِيَةٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ.
باب: کتوں کے قتل کا حکم پھر اس حکم کا منسوخ ہونا اور اس امر کا بیان کہ کتے کا پالنا حرام ہے مگر شکار یا کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے لیے یا ایسے ہی اور کسی کام کے واسطے۔
حدیث نمبر: 4029
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا، إِلَّا كَلْبَ زَرْعٍ، أَوْ غَنَمٍ، أَوْ صَيْدٍ، يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ ".
ابوحکم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: "جس نے کھیتی یا بکریوں (کی حفاظت) یا شکار کے کتے کے سوا کتا رکھا اس کے اجر میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کتا رکھا، مگر کھیتی، بکریوں یا شکار کا کتا، اس کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہوں گے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 581  
´شکار، جانوروں اور کھیتی باڑی کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا جائز ہے`
«. . . 256- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اقتنى كلبا ليس بكلب صيد ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی شکاری اور جانوروں کی حفاظت والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پالے تو اس کے اجر و ثواب (نیکیوں) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوتی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 581]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5482، ومسلم 50/1574، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ احادیث ِ صحیحہ سے صرف تین قسم کے کتے پالنے اور رکھنے کا ثبوت ملتا ہے: شکار کے لئے، جانوروں کی حفاظت کے لئے اور کھیتی باڑی (زمین) کی حفاظت کے لئے تیسرے کتے کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 2322، صحيح مسلم 1576] اور یہی کتاب [ح 518] ان تین اقسام اور جاسوسی و تفتیش والے کتوں کے علاوہ ہر قسم کے کتے پالنا اور رکھنا حرام ہیں۔
➋ مصالح مرسلہ اور انسانوں کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ ایسے کتے پالنا جو چور یا گمشدہ چیز کی کھوج لگائیں، شکاری کتے کے حکم میں ہونے کی وجہ سے جائز ہیں۔
➌ ایسے اعمال سے بچنا ضروری ہے جن سے اخروی نقصان کا خدشہ ہو۔ ➍ مصلحت راجحہ کو اس کام پر ترجیح حاصل ہے جس میں نقصان زیادہ ہو۔
➎ ثقہ راوی کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔ ➏ قیراط وزن اور پیمائش کی ایک مقدار کو کہتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 256   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1487  
´کتا پالنے سے ثواب میں کمی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہو گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1487]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے،
یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے،
کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں:
ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا،
گھروالے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا،
پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا،
ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا،
گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1487   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4029  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کھیتی کے کتے کا استثناء بیان کرتے ہیں،
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سنائی گئی،
تو انہیں بھی یاد آ گیا،
اس لیے بعد میں انہوں نے اس کو بیان کرنا شروع کر دیا،
یا انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے،
اس کو بیان کرنا شروع کر دیا،
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے جو یہ کہا تھا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کھیتی کا مالک ہے،
تو اس کا مقصد نہ تھا کہ اس نے اپنے مفاد میں یہ بات گھڑ لی ہے،
بلکہ توثیق و تائید مقصود تھی،
چونکہ وہ کھیتی کے مالک ہیں،
اس لیے وہ اس کو بہتر طور پر جانتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4029