صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
15. باب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا:
باب: بیع صرف اور سونے کی چاندی کے ساتھ نقد بیع۔
حدیث نمبر: 4061
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: كُنْتُ بِالشَّامِ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، فَجَاءَ أَبُو الْأَشْعَثِ ، قَالَ: قَالُوا: أَبُو الْأَشْعَثِ، أَبُو الْأَشْعَثِ، فَجَلَسَ فَقُلْتُ لَهُ: حَدِّثْ أَخَانَا حَدِيثَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: " نَعَمْ غَزَوْنَا غَزَاةً وَعَلَى النَّاسِ مُعَاوِيَةُ، فَغَنِمْنَا غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَكَانَ فِيمَا غَنِمْنَا آنِيَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَأَمَرَ مُعَاوِيَةُ رَجُلًا أَنْ يَبِيعَهَا فِي أَعْطِيَاتِ النَّاسِ، فَتَسَارَعَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ، فَبَلَغَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ فَقَامَ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، عَيْنًا بِعَيْنٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى فَرَدَّ النَّاسُ مَا أَخَذُوا، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَلَا مَا بَالُ رِجَالٍ يَتَحَدَّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ قَدْ كُنَّا نَشْهَدُهُ وَنَصْحَبُهُ، فَلَمْ نَسْمَعْهَا مِنْهُ، فَقَامَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ فَأَعَادَ الْقِصَّةَ، ثُمَّ قَالَ: لَنُحَدِّثَنَّ بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ كَرِهَ مُعَاوِيَةُ أَوَ قَالَ: وَإِنْ رَغِمَ مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَصْحَبَهُ فِي جُنْدِهِ لَيْلَةً سَوْدَاءَ "، قَالَ حَمَّادٌ: هَذَا أَوْ نَحْوَهُ،
حماد بن زید نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی اور انہوں نے ابوقلابہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں شام میں ایک مجلس میں تھا جس میں مسلم بن یسار بھی تھے، اتنے میں ابواشعث آئے تو لوگوں نے کہا: ابواشعث، (آگئے) میں نے کہا: (اچھا) ابو اشعث! وہ بیٹھ گئے تو میں نے ان سے کہا: ہمارے بھائی! ہمیں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کیجیے۔ انہوں نے کہا: ہاں، ہم نے ایک غزوہ لڑا اور لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ انہیں لوگوں کو ملنے والے عطیات (کے بدلے) میں فروخت کر دے۔ (جب عطیات ملیں گے تو قیمت اس وقت دراہم کی صورت میں لے لی جائے گی) لوگوں نے ان (کو خریدنے) میں جلدی کی۔ یہ بات حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ سونے کے عوض سونے کی، چاندی کے عوض چاندی کی، گندم کے عوض گندم کی، جو کے عوض جو کی، کھجور کے عوض کھجور کی اور نمک کے عوض نمک کی بیع سے منع فرما رہے تھے، الا یہ کہ برابر برابر، نقد بنقد ہو۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود کا لین دین کیا۔ (یہ سن کر) لوگوں نے جو لیا تھا واپس کر دیا۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو وہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا: سنو! لوگوں کا حال کیا ہے! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے ہیں، ہم بھی آپ کے پاس حاضر ہوتے اور آپ کے ساتھ رہتے تھے لیکن ہم نے آپ سے وہ (احادیث) نہیں سنیں۔ اس پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا) سارا واقعہ دہرایا اور کہا: ہم وہ احادیث ضرور بیان کریں گے جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں، خواہ معاویہ رضی اللہ عنہ ناپسند کریں۔۔ یا کہا: خواہ ان کی ناک خاک آلود ہو۔۔ مجھے پروا نہیں کہ میں ان کے لشکر میں ان کے ساتھ ایک سیاہ رات بھی نہ رہوں۔ حماد نے کہا: یہ (کہا:) یا اس کے ہم معنی۔
ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ میں شام میں ایک مجلس میں تھا، جس میں مسلم بن یسار بھی موجود تھے، تو ابو اشعث بھی آ گئے، لوگوں نے کہا، ابو اشعث آ گئے، ابو اشعث آ گئے، وہ بیٹھ گئے تو میں نے ان سے کہا، ہمارے بھائی (مسلم بن یسار) کو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سنائیے، تو انہوں نے کہا، ہاں، ہم ایک جنگ میں شریک ہوئے، جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک آدمی کو کہا، اسے لوگوں کو عطیات کے حاصل ہونے کے وقت کی مدت کے ادھار پر فروخت کر دو، لوگوں نے اس کے لیے جلدی کی، حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا پتہ چلا، تو وہ کھڑے ہو کر کہنے لگے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ سونے کی سونے سے اور چاندی کی چاندی سے اور گندم کی گندم سے اور جَو کی جَو سے، کھجور کی کھجور سے اور نمک کی نمک سے بیع سے منع فرما رہے تھے، الا یہ کہ برابر، برابر اور نقد بنقد ہو، تو جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سودی لین دین کیا، تو لوگوں نے جو کچھ لیا تھا، اس کو واپس کر دیا، اس کا پتہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو چلا، تو وہ خطاب کے لیے کھڑے ہو گئے اور کہا، لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے ہیں، ہم بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، تو ہم نے تو وہ احادیث آپ سے نہیں سنیں، تو حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو گئے اور واقعہ دہرایا، اور کہا، ہم وہ باتیں بیان کریں گے، جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں، خواہ معاویہ کو ناپسند ہو، یا یہ کہا، إن رَغِمَ،
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث18  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 18]
اردو حاشہ:
(1)
سونے کا سونے سے، یا چاندی کا چاندی سے تبادلہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب دونوں طرف مقدار برابر ہو اور دونوں فریق بیک وقت ادائیگی کر دیں۔
البتہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونے کی شرط نہیں، تاہم دونوں طرف سے ادائیگی ایک ہی مجلس میں ہو جانی چاہیے۔
اسی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ بھی انہی شروط کے ساتھ جائز ہے۔
مثلا سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے ایک سو دس روپے کے پرانے نوٹ لینا دینا جائز نہیں۔

(2)
حدیث نبوی کے مقابلے میں کسی کی رائے معتبر نہیں، اگرچہ وہ ایک صحابی کی رائے ہو۔
تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی نے حدیث سے ایک مطلب سمجھا ہے، دوسرے صحابی کی رائے میں اس سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا یا دوسری حدیث کو راجح سمجھتا ہے۔
اس صورت میں دونوں آراء کو سامنے رکھ کر غو ر کیا جا سکتا ہے کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔
اس اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے تو عنداللہ معاف ہے۔

(3)
صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ حدیث سے ہٹ کر ایک رائے ظاہر کی گئی تو صحابی رسول اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کی حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ تمہارے ماتحت نہیں ہوں گے۔

(4)
جب کسی مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی مختلف آراء ہوں تو وہ رائے زیادہ قابل قبول ہو گی جس کی تائید قرآن و حدیث سے ہو جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں آراء معلوم ہونے پر اس قول کو ترجیح دی جو فرمان نبوی سے ثابت تھا اور اسے قانونا نافذ کر دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 18   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4061  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت مالک بن اوس اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نقدی (کرنسی)
کے باہمی تبادلہ میں،
اگر جنس ایک ہو تو مساوات اور دست بدست ہونا ضروری ہے،
ایک طرف نقد ہو اور دوسری طرف نسیئہ ہو یعنی تاخیر ہو تو یہ تبادلہ جائز نہیں ہے۔
(2)
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے،
اگر سونے یا چاندی کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو اس میں سونا،
چاندی کرنسی دینار و درہم کی صورت میں ہو یا ڈلی کی صورت میں یا زیورات و برتن کی صورت میں،
ہر حالت میں،
ان کا برابر،
برابر اور نقد بنقد ہونا ضروری ہے،
لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کا نظریہ یہ تھا کہ جب وہ مصوغ ہے یعنی زیورات یا برتن وغیرہ کی صورت میں ہے،
تو پھر اس کے عوض زیادہ سونا یا زیادہ چاندی لینا جائز ہے،
کیونکہ اب یہ سونا یا چاندی نہیں ہے،
قابل فروخت سامان ہے،
جس میں ادھار اور کمی و بیشی دونوں جائز ہیں،
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس نظریہ پر اعتراض کیا تھا،
لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بات تسلیم نہیں کی تھی،
پھر حضرت ابو درداء نے،
حضرت عمر بن خطاب کو اس کی اطلاع دی،
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس سے روک دیا،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
یہ حضرات اس حدیث کو عام معنی میں لیتے تھے،
اور وہ سونے،
چاندی کی ہر صورت میں تبادلہ میں مساوات و برابری اور نقد بنقد ضروری خیال کرتے تھے،
اور جمہور ائمہ کا یہی موقف ہے۔
(3)
ابن عساکر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ماہ رمضان 10ھ میں سنی تھی،
اور اس لیے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،
کہ ایک صحابی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نشین اور رفیق رہا ہے،
ضروری نہیں ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر حدیث سنی ہو،
جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہیں سنی تھی،
اس لیے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے ان کی اس دلیل کو رد کر دیا کہ میں آپﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتا تھا،
اور آپﷺ کی احادیث سنتا تھا،
لیکن میں نے نہیں سنی ہے،
تم کیوں بیان کرتے ہو۔
(4)
اعطيات الناس سے مراد،
لوگوں کو بیت المال سے ملنے والے وظائف ہیں،
اس طرح گویا،
لوگوں نے چاندی یا سونے کے برتن،
ادھار خریدے یا بیچے تھے،
کہ جب ہمیں وظائف مل جائیں گے،
تو ہم ان کی قیمت ادا کر دیں،
تو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا،
کیونکہ تبادلہ میں نقد بنقد ہونا ضروری ہے،
سونے،
چاندی کا برتن،
سونے چاندی کے حکم میں ہے،
اس لیے اگر اسے خریدا جائے گا،
تو دونوں کا وزن برابر ہونا چاہیے اور نقد بنقد ہو،
جبکہ برتن خالص سونے یا خالص چاندی کا ہو۔
(5)
ذهب و فضة:
(سونا،
چاندی)

میں سود کی علت و سبب ائمہ اربعہ کے نزدیک کیا ہے،
اس کی بحث گزر چکی ہے،
باقی اشیاء (گندم،
جو،
کھجور اور نمک)

کے بارے میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
(1)
امام ابو حنیفہ،
امام احمد اور امام اسحاق وغیرہم رحمہم اللہ کے نزدیک ناپ کیل اور ایک جنس ہونا ہے،
اس لیے ان کے نزدیک ہر کیلی اور وزنی چیز کا اگر اس کی مثل ہم جنس سے تبادلہ ہو گا،
تو برابر،
برابر اور نقد بنقد ہو گا۔
چاہے،
وہ چیز طعام بنے یا نہ،
مثلا روئی،
اون،
اناج،
لوہا،
پیتل،
سونا اور چاندی وغیرہ۔
(2)
امام شافعی کے نزدیک مطعوم (کھانے کی اشیاء)
اور ہم جنس ہونا ہے،
اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے،
اس قول کی رو سے ربا الفضل کا تعلق تمام مطعومات سے ہو گا،
وہ کیلی ہوں یا وزنی ہوں یا گن کر فروخت ہوتی،
تبادلہ برابر،
برابر ہو گا،
مثلا سیبوں،
انار یا انڈوں کا تبادلہ برابر ہو گا،
مگر مطعوم نہیں ہیں تو کمی و بیشی جائز ہے۔
(3)
امام مالک کے نزدیک ذخیرہ کے قابل اشیاء،
اور ہم جنس ہوں اور بعض مالکیہ کے نزدیک اس کے ساتھ قوت (خوراک)
ہونا بھی شرط ہے،
یعنی ادخار،
خوراک اور ہم جنس ہوں۔
شاہ ولی اللہ نے مالکیہ کے موقف کو پسند کیا ہے،
حجۃ اللہ،
ج 2،
ص 107 اور علامہ تقی نے لکھا ہے،
ان تعليل المالكية اظهر و اولي من جهة النظر ومن جهة العمل عليه (تکملة،
ج 1،
ص 582)

مالکیہ کی علت زیادہ واضح ہے اور نظری و فکری حیثیت سے اور عملی اعتبار سے بھی زیادہ مناسب ہے،
گویا ربا الفضل کا تعلق غذا بننے والی اشیاء سے ہے،
جبکہ ان کا ذخیرہ کرنا ممکن ہو،
ہر مطعوم چیز سے نہیں ہے اور ابن رشد مالکی نے بدایہ میں احناف کے موقف کو پسند کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4061