صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
21. باب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ:
باب: اونٹ کا بیچنا اور سواری کی شرط کر لینا۔
حدیث نمبر: 4098
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ عَامِرٍ ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَأَرَادَ أَنْ يُسَيِّبَهُ، قَالَ: فَلَحِقَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا لِي وَضَرَبَهُ، فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ، قَالَ: بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ، قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ وَاسْتَثْنَيْتُ عَلَيْهِ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا بَلَغْتُ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، فَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي، فَقَالَ: أَتُرَانِي مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ، خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ "،
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سفر کر رہے تھے، جو چلتے چلتے تھک چکا تھا، تو میں نے چاہا کہ اس کو چھوڑ دوں، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دعا کی اور اسے مارا، تو وہ اس قدر تیز چلنے لگا، اس قدر تیز کبھی نہیں چلا تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ ایک اوقیہ میں بیچ دو، میں نے کہا، نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا، یہ مجھے بیچ دو۔ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ایک اوقیہ میں بیچ دیا، اور میں نے اپنے گھر تک اس پر سوار ہونے کو مستثنیٰ کر لیا، تو میں جب گھر پہنچ گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت نقد ادا کر دی، پھر میں واپس پلٹا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے آدمی بھیجا، اور فرمایا، کیا تم میرے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ میں نے تیرا اونٹ لینے کے لیے تمہیں کم قیمت لگائی ہے؟ اپنا اونٹ اور اپنے دراہم لے لو، وہ تیرے ہی ہیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4098  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أراد أن يسيبه:
اسے چھوڑ دینے اور آزاد کر دینے کا ارادہ کیا۔
(2)
حملانه:
اس پر سوار ہونا۔
(3)
ما كستك:
قیمت کم لگانا۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت جابر اور اس کے اونٹ کے حق میں دعا فرمائی،
اور اسے کچوکا بھی لگایا،
تو آپﷺ کی دعا اور کچوکے کی برکت سے اونٹ بہت تیز چلنے لگا،
تو آپﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیار و محبت کا اظہار کرنے کے لیے اونٹ خریدنے کی خواہش کا اظہار فرمایا،
اور اس کی قیمت بھی لگا دی،
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے تحفہ دینے کی پیشکش کر دی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمتاً لینے پر اصرار کیا،
اور قیمت میں اضافہ فرماتے رہے،
اس لیے اس قیمت میں بہت اختلاف واقع ہوا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اوقیہ (چالیس درہم)
کو ترجیح دی ہے،
کیونکہ اکثر راویوں سے یہی منقول ہے،
آخر کار حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ فروخت کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے،
اور عرض کی،
کہ میں ہی اس پر سوار ہو کر مدینہ جاؤں گا،
اور وہیں جا کر قیمت وصول کروں گا،
آپﷺ نے ان کی اس بات کو قبول کر لیا۔
اس حدیث سے امام احمد،
امام اسحاق،
امام اوزاعی وغیرہم محدثین نے اس قسم کی شرط کے جواز پر استدلال کیا ہے،
کیونکہ یہ شرط استثناء کے حکم میں ہی ہے،
کیونکہ مسافت معلوم اور متعین تھی،
اور احناف کے موقف کے مطابق ایسی شرط لگانا جائز ہے،
جريٰ بها التعامل،
لوگوں میں جس کا رواج ہو،
تکملہ ج 1،
ص 629،
اور ص 635 اور یہ شرط ایسی ہے،
نیز یہ شرط مقتضائے عقد کے منافی نہیں ہے،
کیونکہ اس میں کسی قسم کا نقصان،
دھوکا یا ظلم و زیادتی نہیں ہے،
بلکہ اس حدیث کے مطابق ہے،
جس سے اس کے مخالفین استدلال کرتے ہیں،
(نهي النبي صلي الله عليه وسلم عن الثنيا الا ان يعلم)
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نامعلوم یا مجہول استثناء سے منع فرمایا۔
جس کا مطلب ہوا،
معلوم استثناء جائز ہے،
اس لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی شرط لگانے کے بعد آپ نے فرمایا،
انقرناك ظهرة يا تبليغ عليه الي اهلك،
کہ ہم نے تیری شرط کو قبول کر لیا،
ہم تمہیں اس کی پشت پر سوار ہونے یا اس پر گھر پہنچنے کی اجازت دیتے ہیں،
باقی رہا یہ مسئلہ کہ آپﷺ کا مقصد سودا کرنا تھا ہی نہیں،
تو یہ بات آپ کے ذہن میں تو ہو سکتی ہے،
حضرت جابر کو یہ معلوم نہ تھا،
ائمہ ثلاثہ،
امام ابو حنیفہ،
امام مالک اور امام شافعی نے،
اس حدیث کو تبرع اور احسان پر محمول کیا ہے،
شرط تسلیم نہیں کیا،
حالانکہ اس روایت میں شرط کا تذکرہ موجود ہے،
اس لیے آج کل اس پر عمل ہے،
جیسا کہ خود علامہ تقی نے اعتراف کیا ہے،
اس لیے حنبلی موقف کو قبول کر لینے کی تلقین کی ہے۔
(تکملہ ج 1،
ص 636)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4098