صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
12. بَابُ مَنْ تَطَوَّعَ فِي السَّفَرِ فِي غَيْرِ دُبُرِ الصَّلَوَاتِ وَقَبْلَهَا:
باب: فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1105
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسَبِّحُ عَلَى ظَهْرِ رَاحِلَتِهِ حَيْثُ كَانَ وَجْهُهُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر خواہ اس کا منہ کسی طرف ہوتا نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 112  
´قبلے کا بیان`
«. . . 278- وبه: أنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته فى السفر حيثما توجهت به، قال عبد الله بن دينار: وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر، جس طرف بھی اس کا رخ ہوتا تھا (نفل) نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 112]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 37/700، من حديث مالك، والبخاري 1096، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے لیکن فرض نماز جائز نہیں ہے جیسا کہ صحیح بخاری [1097۔ 1099] اور صحیح مسلم [700] وغیرہما کی احادیث سے ثابت ہے۔
➋ نوافل میں سواری پر قبلہ رُخ ہونا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ قبلہ رخ ہو کر نفل شروع کئے جائیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سفر میں اپنے گدھے پر بغیر قبلہ رخ ہوئے نماز پڑھتے تھے، آپ اشارے سے رکوع اور سجدہ کرتے اور اپنے چہرے کو کسی چیز پر نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ 1/151، وسنده صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں ہر وقت مستعد اور پیش قدم رہتے تھے۔
➍ جب کشتی چل رہی ہوتی تو سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور جب کشتی رُکی ہوتی تو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 3/155، وسنده صحيح]
➎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کَشتی میں نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو اِلا یہ کہ غرق ہونے کا ڈر ہو۔ [المستدرك للحاكم 275/1 ح1019، وصححه على شرط مسلم و قال: وهوشاذ بمرة، ووافقه الذهبي وسنده حسن، محمد بن الحسين بن ابي الحنين ثقه]
کشتی پر قیاس کرتے ہوئے ہوائی جہاز اور ریل گاڑی میں اضطراری حالت میں فرض نماز پڑھنا جائز ہے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے سواری پر وتر پڑھا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 278   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 176  
´سواری پر نماز پڑھنا`
«. . . 400- مالك عن عمرو بن يحيى المازني عن أبى الحباب سعيد بن يسار عن ابن عمر أنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو على حمار وهو موجه إلى خيبر. . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر بیٹھے خیبر کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 176]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 700/35، دار السلام:1614، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ سواری (چاہے وہ کوئی جانور ہی ہو) نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔
➋ سواری پر نفل نماز پڑھنے کی صورت میں قبلہ رخ ہونا فرض نہیں ہے۔
➌ یحیی بن سعید الانصاری فرماتے ہیں: میں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو سفر میں دیکھا، آپ ایک گدھے پر (بیٹھے) نماز پڑھ رہے تھے، آپ کا رخ قبلے کی طرف نہیں تھا، آپ اشارے سے رکوع اور سجدہ کررہے تھے لیکن اپنا چہرہ کسی چیز نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ 151/1ح 352 و سنده صحيح، م]
➍ گدھے پر سواری کرنا قطعاً معیوب نہیں ہے۔
➎ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع پر دلیل ہے۔
➏ مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے [الموطأ حديث:28، صحيح بخاري: 3468]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 400   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 491  
´قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، وہ چاہے جس طرف متوجہ ہو جاتی، نیز آپ اس پر وتر (بھی) پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 491]
491 ۔ اردو حاشیہ:
➊نفل نماز چونکہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، سفر میں بھی حضر میں بھی۔ اگر سفر میں قبلے کا یا نیچے اتر کر پڑھنے کا پابند کیا جاتا تو یہ ہوتاکہ مسافر نفلوں سے محروم رہتا یا سفر نہ کر سکتا، اس لیے نفل نماز میں رعایت رکھی گئی کہ مسافر سفر کے دوران میں سواری پر نماز پڑھ سکتا ہے، خواہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو اور خواہ رکوع اور سجدہ نہ کر سکے، تاہم یہ ضروری ہے کہ آغاز کرتے وقت سواری کا رُخ قبلے کی طرف ہو، بعد میں چاہے جس طرف ہو جائے۔
➋وتر کی نماز سواری پر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر فرض یا واجب نہیں بلکہ نفل ہیں۔ احناف وتر کو واجب کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے: [حديث: 462]
➌قبلے کی شرط اس وقت تک ہے جب تک ممکن ہو جب قبلہ رخ ہونا انسان کے بس ہی میں نہ ہو یا بعد میں بدستور قبلہ رخ رہنا محال ہو اور نماز کا وقت بھی جا رہا ہو اور نیچے اترنا ناممکن اور بس میں نہ ہو اور بعد میں اس کی قضا ادا کرنا بھی پریشانی کا باعث ہو تو سواری پر فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر ایسے نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 491   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 492  
´قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، اسی سلسلہ میں یہ آیت کریمہ: «فأينما تولوا فثم وجه اللہ» تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے (البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 492]
492 ۔ اردو حاشیہ:
➊یہ بھی نفل نماز کی بات ہے۔
➋مکہ سے مدینہ آتے ہوئے ظاہر ہے قبلہ پیٹھ کی طرف ہو گا۔
➌اس آیت کی شانِ نزول خاص ہے لیکن حکم عام ہے، یعنی اس جیسے ہر مسئلے میں یہ حکم لاگو ہو گا، مثلاً: قبلے کا پتہ نہ چلے یا غلطی سے قبلے کی بجائے کسی اور طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لی گئی ہو، وغیرہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 492   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 744  
´ایسی حالت کا بیان جس میں قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے خواہ وہ کسی بھی طرف متوجہ ہو جاتی۔ مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار کا کہنا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 744]
744 ۔ اردو حاشیہ: لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز کا آغاز کرتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف ہو۔ بعد میں چاہے اس کا رخ کسی طرف بھی ہو جائے۔ دوسری روایت میں اس امر کی صراحت موجود ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 744   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 745  
´ایسی حالت کا بیان جس میں قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نماز پڑھتے خواہ وہ کسی بھی طرف آپ کو لے کر متوجہ ہوتی، وتر بھی اسی پر پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 745]
745 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 491۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 745   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1200  
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا، میں پیچھے ہو گیا، اور نماز وتر ادا کی، انہوں نے پوچھا: تم پیچھے کیوں رہ گئے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں اسوہ حسنہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1200]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز وتر کی ادایئگی کے لئے سواری سے اترنا ضروری نہیں لیکن فرض نماز زمین پر ہی ادا کی جائے۔

(2)
سفر میں وتر پڑھے جاتے ہیں۔

(3)
سفر میں ساتھیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

(4)
اگر کسی ساتھی کی غلطی معلوم ہو تو اسے اچھے طریقے سے صحیح مسئلہ بتا دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1200   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 472  
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 472]
اردو حاشہ:
1؎:
متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے،
اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو نا پسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے،
کبھی کبھی آپ ﷺ سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے،
ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 472   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1226  
´سواری پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ کا رخ خیبر کی جانب تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1226]
1226۔ اردو حاشیہ:
گدھا، اس کا گوشت کھانا حرام ہے مگر اس کا جسم، اگر اس پر نجاست نہ لگی ہو تو پاک ہے اور اس پر نماز بھی صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1226   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1105  
1105. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سر مبارک کے اشارے سے اپنی سواری پر نوافل پڑھا کرتے تھے، جدھر بھی اس کا منہ ہو جاتا۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1105]
حدیث حاشیہ:
مطلب امام بخاری ؒ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت ﷺ نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔
قال ابن القیم في الھدي وکان من ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في سفرہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنه أنه صلی اللہ علیه وسلم صلی سنة الصلاة قبلھا ولا بعدھا إلا ما کان من سنة الوتر والفجر فإنه لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ۔
(نیل الأوطار)
یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔
آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔
پھر علامہ ابن قیم ؒ نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت ﷺ کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔
وقد سئل الإما م أحمد عن التطوع في السفر فقال أرجو أن لا یکون بالتطوع في السفر بأس۔
یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔
پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔
وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم في الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائه الکاملة۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1105   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1105  
1105. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سر مبارک کے اشارے سے اپنی سواری پر نوافل پڑھا کرتے تھے، جدھر بھی اس کا منہ ہو جاتا۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1105]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے واضح کیا ہے کہ دوران سفر فرض نماز کے بعد سنن راتبہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
احادیث پیش کرنے سے مقصود اس قسم کے نوافل کی مختلف انواع بیان کرنا ہے، چنانچہ پہلی معلق روایت میں نماز سے پہلے سنت فجر پڑھنا ذکر کیا گیا ہے۔
دوسری حدیث میں ان نوافل کا بیان ہے جن کی ادائیگی کے لیے مخصوص وقت ہے جیسا کہ صلاۃ ضحیٰ۔
تیسری حدیث میں نماز تہجد اور چوتھی میں مطلق نوافل کا بیان ہے۔
آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کے بعد حضرت ابن عمر ؓ کا معمول بیان کیا ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ دوران سفر میں نوافل پڑھنے مشروع ہیں ان کا نسخ یا معارض ثابت نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔
(فتح الباري: 738/2) (3)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا عمل متصل سند کے ساتھ امام بخاری ؒ نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ دوران سفر میں اپنی سواری پر نماز تہجد پڑھتے تھے۔
سواری کا جس طرف بھی منہ ہو جاتا اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1098)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1105