صحيح مسلم
كِتَاب الْوَصِيَّةِ -- وصیت کے احکام و مسائل
3. باب وُصُولِ ثَوَابِ الصَّدَقَاتِ إِلَى الْمَيِّتِ:
باب: صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔
حدیث نمبر: 4222
وَحَدَّثَنَاهُ أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وَحَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ . ح وحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ هُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ ح، وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ أَمَّا أَبُو أُسَامَةَ، وَرَوْحٌ، فَفِي حَدِيثِهِمَا: فَهَلْ لِي أَجْرٌ، كَمَا قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَأَمَّا شُعَيْبٌ، وَجَعْفَرٌ، فَفِي حَدِيثِهِمَا: أَفَلَهَا أَجْرٌ كَرِوَايَةِ ابْنِ بِشْرٍ.
ابواسامہ، شعیب بن اسحاق، روح بن قاسم اور جعفر بن عون، سب نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ ابواسامہ اور روح کی حدیث میں ہے: کیا میرے لیے اجر ہے؟ جس طرح یحییٰ بن سعید نے کہا۔ اور شعیب اور جعفر کی حدیث میں ہے: کیا ان کے لیے اجر ہے؟ جس طرح ابن بشیر کی روایت ہے
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی چار سندوں سے ہشام بن عروہ ہی کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، ابو اسامہ اور روح تو ہشام سے یہ نقل کرتے ہیں کہ کیا مجھے اجر ملے گا؟ جیسا کہ یحییٰ بن سعید کی حدیث نمبر 12 میں گزرا ہے، اور شعیب اور جعفر کی حدیث میں، اوپر کی ابن بشیر کی روایت کی طرح ہے، کیا اس کو اجر ملے گا؟
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4222  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان دونوں حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے،
اگر میت کی اولاد اس کی طرف سے صدقہ کرے،
تو صدقہ کرنے والے کی طرح میت کو بھی ثواب ملے گا،
اور بقول حافظ ابن تیمیہ،
یہ بات اس آیت کے منافی نہیں ہے،
کہ ﴿لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ انسان اپنی ہی محنت اور کاوش کے مالک یا حقدار ہے،
دوسرا کوئی اس کا حقدار یا مالک نہیں ہے،
کیونکہ اگر مالک اور حقدار اپنی چیز دوسرے کو اپنی خوشی اور مرضی سے دے دے،
تو دوسرا اگرچہ اس کا مالک یا حقدار نہیں تھا،
لیکن وہ اس کے دینے سے اب اس سے فائدہ اٹھا لے گا،
جیسا کہ ہم نماز جنازہ میں اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں،
یا التحیات میں سب نیک بندوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں،
تو ان کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نفی استحقاق اور ملکیت کی ہے،
نفع اٹھانے کی نفی نہیں ہے۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ،
ج 24،
ص 367۔
مجموعۃ اور مسائل المنیریۃ،
ج 3،
ص 209)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4222