صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ -- قسموں کا بیان
8. باب صُحْبَةِ الْمَمَالِيكِ وَكَفَّارَةِ مَنْ لَطَمَ عَبْدَهُ:
باب: غلام، لونڈی سے کیونکر سلوک کرنا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4299
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ زَاذَانَ : " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ دَعَا بِغُلَامٍ لَهُ، فَرَأَى بِظَهْرِهِ أَثَرًا، فَقَالَ لَهُ: أَوْجَعْتُكَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَأَنْتَ عَتِيقٌ، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ شَيْئًا مِنَ الْأَرْضِ، فَقَالَ: مَا لِي فِيهِ مِنَ الْأَجْرِ مَا يَزِنُ هَذَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ ضَرَبَ غُلَامًا لَهُ حَدًّا لَمْ يَأْتِهِ أَوْ لَطَمَهُ فَإِنَّ كَفَّارَتَهُ أَنْ يُعْتِقَهُ "،
شعبہ نے ہمیں فراس سے باقی ماندہ سابقہ سند سے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو بلایا اور اس کی پشت پر (ضرب کا) نشان دیکھا تو اس سے کہا: میں نے تمہیں دکھ دیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: تم آزاد ہو۔ کہا: پھر انہوں نے زمین سے کوئی چیز پکڑی اور کہا: میرے لیے اس میں اتنا بھی اجر نہیں ہے جو اس کے برابر ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ فرما رہے تھے: "جس نے اپنے غلام کو حد لگانے کے لیے (ایسے کام پر) مارا جو اس نے نہیں کیا یا اسے طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے
حضرت زاذان سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے اپنے غلام کو بلایا اور اس کی پشت پر مار کا نشان دیکھا، تو اس سے پوچھا، میں نے تمہیں دکھ پہنچایا ہے، اس نے کہا، نہیں، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، تم آزاد ہو، زاذان کہتے ہیں، پھر انہوں نے زمین سے کوئی چیز اٹھائی اور کہا، میرے لیے اس کی آزادی میں اس کے برابر بھی اجر نہیں ہے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، جس نے اپنے غلام کو اس قدر سزا دی جس کا وہ سزاوار نہیں تھا یا اس کو تھپڑ رسید کیا، تو اس کا کفارہ اس کی آزادی ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5168  
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔`
زاذان کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، آپ نے اپنا ایک غلام آزاد کیا تھا، آپ نے زمین سے ایک لکڑی یا کوئی (معمولی) چیز لی اور کہا: اس میں مجھے اس لکڑی بھر بھی ثواب نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ لگائے یا اسے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5168]
فوائد ومسائل:
اسلام نے انسانی معاشرے میں صدیوں میں رائج غلامی کےنظام کو بڑی دقیق حکمت سے ختم کیا ہے کہ موقع بموقع ہوجانے والی غلطیوں میں غلاموں کے آذاد کرنے کو ان کا کفارہ قرار دیا ہے۔
چنانچہ اہل ایمان نے اس انداز سے غلاموں کو آزاد کرنا اپنا معمول بنا لیا۔
اور انہیں آزاد کیا کہ اب یہ صنف تقریباً ناپید ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5168