صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ -- قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
1. باب الْقَسَامَةِ:
باب: قسامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4348
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ يُبْطِلَ دَمَهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ ".
سعید بن عبید نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں بشیر بن یسار انصاری نے سہل بن ابی حثمہ انصاری سے حدیث بیان کی، انہوں نے ان کو بتایا کہ ان (کے خاندان) میں سے چند لوگ خیبر کی طرف نکلے اور وہاں الگ الگ ہو گئے، بعد ازاں انہوں نے اپنے ایک آدمی کو قتل کیا ہوا پایا۔۔ اور انہوں نے (پوری) حدیث بیان کی اور اس میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا کہ اس کے خوب کو رائیگاں قرار دیں، چنانچہ آپ نے صدقے کے اونٹوں سے سو اونٹ اس کی دیت ادا فرما دی۔
حضرت سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے چند افراد خیبر کی طرف گئے اور وہاں بٹ گئے، تو انہوں نے اپنے میں سے ایک کو مقتول پایا، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دینا پسند نہ فرمایا، تو اس کی دیت میں صدقہ کے سو اونٹ دئیے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4348  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اولیائے مقتول نے،
بینہ پیش کرنے یا قسمیں اٹھانے یا یہود کی قسمیں قبول کرنے سے انکار کر دیا،
لیکن یہودیوں کو اس کا علم ہوا کہ ہم سے قسمیں لی جا سکتی ہیں،
تو وہ قسمیں اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع بھیجی کہ ہم قسمیں دینے کے لیے تیار ہیں،
چونکہ وہ قسموں کے دینے پر آمادہ تھے،
اس لیے بعض روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے قسمیں اٹھائیں،
لیکن چونکہ انصار ان کی قسموں کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے،
اس لیے آپﷺ نے ان سے قسمیں نہیں لیں،
اس لیے بعض روایات میں آیا ہے،
یہود نے قسمیں نہیں اٹھائیں۔
اس طرح دیت کا مسئلہ ہے،
جب یہود سے قسم قبول نہیں کی گئی تو ان سے دیت لینے کا مسئلہ بھی پس منظر میں چلا گیا،
لیکن یہود کو چونکہ خطرہ تھا کہ مقتول ہمارے علاقہ میں پایا گیا،
اس لیے انہوں نے اپنے طور پر کچھ اونٹ بھیج دئیے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قبول کر لیے اور دیت کی تکمیل اپنی طرف سے کی،
اور چونکہ مدعی علیہم قسم قبول نہیں کی گئی تھی،
اس لیے امام احمد کے قول کے مطابق ایسی صورت میں مقتول کی دیت،
بیت المال پر پڑتی ہے،
اس لیے اس کو بیت المال سے ادا کر دیا گیا،
چونکہ ادائیگی آپ کے حکم سے ہوئی تھی،
اس لیے یہ کہہ دیا گیا،
کہ آپ نے اپنی طرف سے دئیے،
اور چونکہ وہ اونٹ بیت المال سے ادا کیے گئے تھے،
اس لیے ان کو صدقہ کے اونٹ قرار دیا گیا،
اور بقول بعض وہ اونٹ صدقہ کے تھے،
لیکن آپﷺ نے قیمت اپنی طرف سے ادا کی تھی،
یا صدقہ کے اونٹوں سے ادائیگی کے عوض ادھار لیے تھے،
کہ مال فے سے ادا کر دیں گے،
لیکن بظاہر امام احمد کا موقف ہی صحیح معلوم ہوتا ہے،
کہ مصالحت کے لیے بیت المال سے ادائیگی ہو سکتی ہے،
چاہے وہ اونٹ زکاۃ وغیرہ کے ہی کیوں نہ ہو۔
(فتح الباري،
ج 12،
ص 292)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4348