صحيح مسلم
كِتَاب الْحُدُودِ -- حدود کا بیان
9. باب قَدْرِ أَسْوَاطِ التَّعْزِيرِ:
باب: تعزیر میں کتنے کوڑے تک لگانا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 4460
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ إِذْ جَاءَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ، فَحَدَّثَهُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا سُلَيْمَانُ ، فَقَالَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يُجْلَدُ أَحَدٌ فَوْقَ عَشَرَةِ أَسْوَاطٍ إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ".
حضرت ابوبردہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "حدوداللہ میں سے کسی حد کے علاوہ کسی کو دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے جائیں
حضرت ابو بردہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، کوئی انسان، اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے سوا دس سے زائد کوڑے نہ مارے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4460  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعزیر کی صورت میں دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے،
امام اسحاق اور لیث کا یہی خیال ہے اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔
امام ابو حنیفہ،
مالک،
شافعی اور احمد کے ایک قول کے مطابق،
اس سے زائد کوڑے تعزیر کی صورت میں لگائے جا سکتے ہیں،
لیکن زائد کی مقدار میں اختلاف ہے۔
(1)
امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک،
39 سے زائد کوڑے،
آزاد ہو یا غلام نہیں مارے جا سکتے،
امام شافعی اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے،
امام شافعی کے نزدیک غلام کو انیس (19)
سے زائد کوڑے نہیں مارے جا سکتے،
ابن ابی لیلیٰ اور ابو یوسف کے نزدیک چونکہ کم از کم حد اَسی (80)
کوڑے ہیں،
اس لیے تعزیر سے اس سے زائد کوڑے نہیں مارے جا سکتے،
المغنی،
ج 12،
ص 524۔
فتح الباری،
ج 12،
ص 220۔
اور امام کا ایک قول بقول ابن قدامہ یہ ہے،
ہر جرم میں اس کی جنس کی حد کا لحاظ ہے،
مثلا اگر تعزیر وطی کے جرم پر ہے تو سو کوڑوں سے کم ہو گی تاکہ حد زنا سے کم رہے،
اگر زنا کے سوا الزام تراشی ہو تو تعزیر اَسی (80)
سے کم کوڑے ہو گی اور امام مالک کے نزدیک تعزیر کا اختیار امام کو ہے یا اس کے مقرر کردہ قاضی کو،
اس لیے وہ جرم کی شدت و ضعف کے اعتبار سے جتنی چاہے سزا دے سکتا ہے،
حد سے بھی زیادہ تعزیر جاری کر سکتا ہے،
ابو ثور اور ابو یوسف کا ایک قول بھی یہی ہے اور ان ائمہ نے جن آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے استدلال کیا ہے،
ان میں در حقیقت کسی ایسے کام کا ارتکاب کیا گیا ہے،
جس پر حد لگتی ہے،
لیکن وہ بینہ یا اقرار سے ثابت نہیں ہو سکا یا مرتکب ناواقف اور جاہل تھا،
لیکن قرائن اور آثار سے وہ بات ثابت ہو جاتی تھی،
جو بعض وجوہ کی بناء پر ثابت نہیں ہو سکی اور حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے نزدیک،
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی پر تو دس کوڑے لگائے جا سکتے ہیں،
لیکن شخصی اور انسانی قوانین کے توڑنے پر،
دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے،
مثلا کوئی انسان،
باپ یا استاد کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ تادیب و سرزنش کے لیے،
دس سے زائد کوڑے نہیں لگا سکتا یا بقول حافظ ابن حجر،
چھوٹے گناہ پر دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے اور بڑے گناہ پر اسے دس سے زائد کوڑے لگائے جا سکتے ہیں۔
(فتح الباری،
ج 12،
ص 220)

کیونکہ،
حد کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت پر بھی ہوتا ہے،
جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا۔
۔
(سورة البقرة: 229)
یہ اللہ کی حدود ہیں،
ان کو نہ توڑو۔
"یعنی اللہ کا حکم ہے،
اس کی نافرمانی نہ کرو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4460