صحيح مسلم
كِتَاب الْحُدُودِ -- حدود کا بیان
10. باب الْحُدُودُ كَفَّارَاتٌ لأَهْلِهَا:
باب: حد لگانے سے گناہ مٹ جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 4462
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، فَتَلَا عَلَيْنَا آيَةَ النِّسَاءِ أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12 الْآيَةَ.
معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور حدیث میں یہ اضافہ کیا: اس کے بعد آپ نے ہمارے سامنے عورتوں (کے احکام) والی (سورۃ الممتحنہ کی) یہ آیت تلاوت کی: "کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں
امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے زہری ہی کی مذکورہ بالا سند سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، جس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی بیعت پر یہ آیت ہمیں سنائی: وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4462  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے جس مجلس کا تذکرہ کیا ہے،
اس کا تعلق فتح مکہ کے بعد کی کسی مجلس سے ہے،
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سورۃ ممتحنہ کی آیت کی تلاوت فرمائی،
جو فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس انسان پر دنیا میں حد شرعی جاری کر دی جاتی ہے،
وہ اس کے گناہ کا کفارہ بنتی ہے،
کیونکہ خوش دلی سے حد شرعی قبول کر لینا،
عملی توبہ ہے اور توبہ سے ہر قسم کا جرم اور گناہ معاف ہو جاتا ہے اور حد قبول کرنا عملی توبہ ہے،
اس کی دلیل حضرت ماعز رضی اللہ عنہ اور غامدیہ کی حدیث ہے،
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حد جاری کرنے کے بعد،
اس کو توبہ کا نام دیا ہے،
اکثر فقہائے امت کے نزدیک اس حدیث کی بناء پر حدود کفارہ ہیں،
لیکن احناف،
حدود کو کفارہ نہیں مانتے،
ذو اجر عبرت کا سامان،
آئندہ ارتکاب سے روکنے کا باعث قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے دلیل آیت محاربہ کو بناتے ہیں،
حالانکہ اس کا سبب نزول عکل اور عرینہ کا واقعہ جو اسلام سے مرتد ہو گئے اور بالاتفاق حد شرک و کفر کا کفارہ نہیں بن سکتی،
مولانا محمود الحسن نے تقریر ترمذی میں حد کا کفارہ ہونا تسلیم کیا ہے اور مولانا شیر احمد عثمانی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔
(فضل الباری،
ج 1،
ص 362)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4462