صحيح مسلم
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
4. باب قَضِيَّةِ هِنْدٍ:
باب: ہند رضی اللہ عنہا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بی بی کا فیصلہ۔
حدیث نمبر: 4479
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُذِلَّهُمُ اللَّهُ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُعِزَّهُمُ اللَّهُ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مُمْسِكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي عَلَيْهِمْ بِالْمَعْرُوفِ".
معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہند رضی اللہ عنہا (بیعت کے لیے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! (پہلے) روئے زمین پر آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کے بارے میں یہ بات نہیں چاہتی تھی کہ اللہ انہیں ذلیل کرے اور (اب ایمان لانے کے بعد) روئے زمین پر آپ کے گھرانے سے بڑھ کر میں کسی گھرانے کے بارے میں یہ نہیں چاہتی کہ اللہ انہیں عزت دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور بھی (زیادہ تم یہ چاہو گی۔) " پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان مال روک کر رکھنے والے آدمی ہیں۔ تو کیا مجھ پر اس بات میں کوئی حرج ہے کہ میں ان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں سے ان کے گھر والوں پر خرچ کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم معروف طریقے سے ان پر خرچ کرو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! زمین کی پشت پر کوئی گھرانہ نہ تھا جس کی ذلت و رسوائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی ذلت سے زیادہ محبوب ہو اور اب روئے زمین پر آپ کے اہل خانہ سے زیادہ کسی گھرانہ کی عزت مجھے محبوب نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں اور اضافہ ہو گا، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ پھر اس نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہے تو کیا مجھے کوئی گناہ ہو گا، اس صورت میں کہ میں اس کا مال اس کے عیال (اہل خانہ) پر اس کی اجازت کے بغیر خرچ کروں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر اس صورت میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کرو۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4479  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ايضاً:
امام ابن تین نے اس کا یہ معنی کیا ہے کہ مجھے بھی اب تجھ سے محبت ہے،
لیکن اکثر علماء نے یہ معنی کیا ہے کہ تیرا ایمان دن بدن مستحکم ہو گا اور اس کے مطابق،
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اضافہ ہو گا اور بغض و نفرت سے واپسی ہو گی،
کیونکہ آض ايضاً کا اصل معنی رجوع اور واپسی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4479