صحيح مسلم
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
4. باب قَضِيَّةِ هِنْدٍ:
باب: ہند رضی اللہ عنہا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بی بی کا فیصلہ۔
حدیث نمبر: 4480
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَمِّهِ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ خِبَاءٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ خِبَاءٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ مِنْ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟، فَقَالَ لَهَا: لَا إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ ".
زہری کے بھتیجے نے ہمیں اپنے چچا سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! روئے زمین پر آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کے بارے میں مجھے زیادہ محبوب نہیں تھا کہ وہ ذلیل ہو اور آج روئے زمین پر آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کوئی گھرانہ مجھے محبوب نہیں کہ وہ باعزت ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور بھی (اس محبت میں اضافہ ہو گا۔) " پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں تو کیا (اس بات میں) مجھ پر کوئی حرج ہے کہ میں، جو کچھ اس کا ہے، اس میں سے اپنے بچوں (گھر والوں) کو کھلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "نہیں، مگر دستور کے مطابق کھلاؤ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہا آئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! روئے زمین پر کوئی خاندان نہ تھا، جس کی ذلت و رسوائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی ذلت سے مجھے زیادہ پسندیدہ ہو اور اب کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے، جس کی عزت، آپ کے اہل خانہ کی عزت سے زیادہ مجھے محبوب ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں اور اضافہ ہو گا، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ پھر کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسفیان کنجوس آدمی ہے تو کیا مجھ پر اس میں گناہ ہے کہ میں اس کے مال سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، مگر خرچہ دستور کے مطابق ہو یا خرچ رسم و رواج کے مطابق کرو۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4480  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اور بچوں کا نفقہ (خرچہ)
اپنے دور کے دستور کے مطابق خاوند کے ذمہ ہے اور ائمہ حجاز کے نزدیک،
عورت اگر اپنے ماں باپ کے گھر کام کاج نہ کرتی ہو یا بیماری وغیرہ سے کر نہ سکتی ہو تو پھر خادمہ مہیا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے اور احناف کے نزدیک یہ اس صورت میں ہے،
جب خاوند مالدار ہو اور بقول بعض اس کا مقصد یہ ہے،
اگر عورت کے ساتھ اس کی لونڈی،
خدمت کے لیے آئی ہے تو اس کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہو گا،
یہ مقصد نہیں ہے کہ اجرت پر اس کے لیے خادمہ رکھی جائے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4480