صحيح مسلم
كِتَاب اللُّقَطَةِ -- کسی کو ملنے والی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
3. باب الضِّيَافَةِ وَنَحْوِهَا:
باب: مہمان داری کا بیان۔
حدیث نمبر: 4516
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلَا يَقْرُونَنَا فَمَا تَرَى؟، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ ".
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں کسی (اہم کام کے لیے) روانہ کرتے ہیں، ہم کچھ لوگوں کے ہاں اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، آپ کی رائے کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: "اگر تم کسی قوم کے ہاں اترو اور وہ تمہارے لیے ایسی چیز کا حکم دیں جو مہمان کے لائق ہے تو قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا اتنا حق لے لو جو ان (کی استطاعت کے مطابق ان) کے لائق ہو۔"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم ایسے لوگوں میں جا کر ٹھہرتے ہیں، جو ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اگر تم کسی قوم میں ٹھہرو اور وہ تمہارے لیے وہ چیز مہیا کریں جو مہمان کو ملنی چاہیے تو اس کو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا مناسب حق، جو انہیں دینا چاہیے تھا چھین لو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3676  
´مہمان کے حق کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3676]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سرکاری امور کی انجام کی دہی کےلیے آنے والے سرکاری ملازم کی کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت پوری کرنا بستی والوں کے لیے ضروری ہے۔

(2)
آج کل بڑے شہروں میں ایسے ملازمین کے لیے ٹھہرنے کا انتظام سرکاری طور پر ہوتا ہے، افسروں کو وہاں ٹھہرنا چاہیے اور کسی ماتحت پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

(3)
جب سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے سفر خرچ وغیرہ (ٹی اے۔
ڈی اے)

مہیا کیا جائے تو ملازم کو چاہیے کہ اس سے مناسب حد تک اپنی ضروریات پوری کرے۔
فضول خرچی کر کے یا غلط بیانی کر کے جائز حد سے زیادہ رقم وصول نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3676   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4516  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اسلامی حکومت کوئی دستہ یا پارٹی کہیں بھیجتی ہے تو اس علاقہ کے لوگوں کو ان کی مہمان نوازی کرنی چاہیے،
لیکن امام احمد نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس علاقہ میں مہمان کو قیمتاً کھانا نہ مل سکتا ہو،
کیونکہ وہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے تو وہاں لوگوں پر مہمان نوازی فرض ہے اور امام لیث کے نزدیک ہر جگہ کے لوگوں پر فرض ہے،
لیکن جمہور کے نزدیک مہمان نوازی سنت مؤکدہ ہے،
فرض نہیں ہے،
اس لیے اس کو جبراً وصول نہیں کیا جا سکتا،
الا یہ کہ مہمان لاچار ہو اور بھوک ستا رہی ہو،
صحیح بات تو یہ ہے اس کا تعلق،
اسلامی حکومت کے کارندوں سے تھا کیونکہ وقت وسائل اتنے عام نہیں تھے،
حکومت ہر جگہ ان کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کر سکتی،
لیکن اب حکومت اس کا انتظام کرتی ہے،
انہیں اس کے لیے رقم مہیا کرتی ہے،
اس لیے اب جائز نہیں،
وگرنہ ایک دو مہمان کسی سے اپنا حق زبردستی وصول کرنے کی استطاعت کہاں رکھتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4516