صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
1. باب جَوَازِ الإِغَارَةِ عَلَى الْكُفَّارِ الَّذِينَ بَلَغَتْهُمْ دَعْوَةُ الإِسْلاَمِ مِنْ غَيْرِ تَقَدُّمِ الإِعْلاَمِ بِالإِغَارَةِ:
باب: جن کافروں کو دین کی دعوت پہنچ چکی ہو ان پر بغیر دعوت دیئے حملہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4520
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍبِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَلَمْ يَشُكَّ.
ابن ابی عدی نے ابن عون سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور انہوں نے جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہا، شک نہیں کیا
امام صاحب مذکورہ بالا حدیث ایک اور استاد سے، ابن عون کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں اور اس نے بلاشک و شبہ یہ کہا ہے کہ جویریہ بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگیں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4520  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
جن لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے،
جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دینا ضروری نہیں ہے،
اقدامی حملہ پہلے ہو سکتا ہے،
جمہور کا یہی موقف ہے،
اگرچہ امام مالک،
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے نزدیک،
ہر حالت میں لڑائی سے پہلے دعوت دینا ضروری ہے اور بقول بعض کسی صورت میں بھی دعوت دینے کی ضرورت نہیں،
لیکن یہ دونوں موقف درست نہیں (نووی)
،
آغاز اسلام میں چونکہ اسلام کی دعوت پھیلی نہیں تھی،
اس لیے اس وقت اسلام کی دعوت دینا ضروری تھا اور جب اسلام کا پیغام عام ہو گیا،
سب تک دعوت پہنچ گئی تو اب دوبارہ دعوت دینا ضروری نہیں ہے،
اس لیے آپ نے بنو مصطلق پر اچانک حملہ کیا تھا اور ام المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا اس حملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگی تھیں،
اس سے معلوم ہوا دشمن کی طرف پیش قدمی کرنا جائز ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4520