صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
3. باب فِي الأَمْرِ بِالتَّيْسِيرِ وَتَرْكِ التَّنْفِيرِ:
باب: معاملہ میں آسانی پیدا کرنے اور نفرت کو ترک کرنے کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 4525
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ: " بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا ".
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو جب اپنے کسی معاملے کی ذمہ داری دے کر روانہ کرتے تو فرماتے: "خوشخبری دو، دور نہ بھگاؤ، آسانی پیدا کرو اور مشکل میں نہ ڈالو
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ساتھیوں میں کسی کو اپنے کسی کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے: بشارت دو، نفرت نہ دلاؤ اور آسانی اور سہولت پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4835  
´جھگڑے اور فساد کی برائی کا بیان۔`
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے، خوشخبری دینا، نفرت مت دلانا، آسانی اور نرمی کرنا، دشواری اور مشکل میں نہ ڈالنا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4835]
فوائد ومسائل:
قائد اور صاحبِ منصب کے لیئے خاص نبوی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ماتحت افراد کے لیئے نرمی اور آسانی پیدا کرنے والا بنے۔
بے مقصد سختی مخالفت کا باعث بنتی ہے۔
جو نفرت لاتی ہے اور کسی بھی نظم اور اجتماعیت کے لیے سم قاتل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4835   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4525  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فضل و کرم،
نیک عمل پر عظیم اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے ذریعہ دین پر عمل پیرا ہونے کا شوق اور رغبت دلانا چاہیے اور ہر وقت،
اس کے غضب و مؤاخذہ اور جہنم کی دھمکی نہیں سنانی چاہیے،
یعنی ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ لوگوں کے دل میں ایمان کی محبت پیدا ہو،
دین سے بیزاری اور نفرت پیدا نہ ہو کہ اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہو،
اس لیے دعوت و تبلیغ میں تدریج اور اہم بالاہم کو ملحوظ رکھ کر گناہوں سے باز رکھنے کی نرمی اور پیار کے ساتھ کوشش کرنا چاہیے،
آغاز اور ابتدا میں ہی اگر نفرت پیدا ہو گئی تو پھر رخ پھیرنا مشکل ہو گا،
اس لیے بچوں اور اسلام میں نئے نئے داخل ہونے والوں پر ابتدا ہی میں سختی کرنا،
اسلام کے مزاج کے منافی ہے،
آہستہ آہستہ تدریج کے ساتھ ان کے اندر ایمان اور عمل صالح کی محبت کو راسخ کریں،
تاکہ وہ خود بخود برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں،
یہ معنی نہیں ہے کہ ان کو کسی حال میں بھی اللہ کے غضب اور پکڑ سے ڈرانا نہیں چاہیے،
کیونکہ قرآن کے اندر،
خود جنت کے ساتھ دوزخ کا تذکرہ،
وعدہ کے ساتھ وعید کا ذکر ہے،
عمل صالح کی ترغیب کے ساتھ برائیوں پر مواخذہ کو بیان کیا گیا ہے،
مقصد یہ ہے کہ دین کو نفرت انگیز طریقہ سے نہ بیان کرو،
اس طرح بیان کرو کہ لوگ راغب ہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4525