صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
4. باب تَحْرِيمِ الْغَدْرِ:
باب: عہد شکنی حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4538
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ، حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ ".
مستمر بن ریان نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابونضرہ نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عہد شکنی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کی بدعہدی کے بقدر بلند کیا جائے گا، سنو! عہد شکنی میں کوئی عوام کے (عہد شکن) امیر سے بڑا نہیں ہو گا
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لیے جھنڈا ہو گا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا اور خبردار! منتظم اعلیٰ (حکمران) سے بڑھ کر کوئی عہد شکن نہیں ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2191  
´قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2191]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث ونائب بنائے گا،
یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ ونائب ہے یہ غلط بات ہے،
بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیساکہ خضرکی دعامیں ہے (والخلیفةبعد)
2؎:
یعنی تمہارے دین کے کاموں کے لیے دنیا جس قدر مفید اور معاون ہو اسی قدر اس کی چاہت کرو،
اور عورتوں کی مکاری اور ان کی چالبازی سے ہوشیار رہو۔

3؎:
اس حدیث سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے:

(1)
کھڑے ہوکر وعظ و نصیحت کرنا مسنون ہے۔

(2)
انسان بھول چوک کا شکار ہوتاہے،
یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔

(3)
اظہار حق کے لیے لوگوں کا ڈر و خوف مانع نہ ہو۔

(4) دنیا اورعورتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

(5) عہد توڑنا قیامت کے دن رسوائی کا باعث ہوگی۔

(6) انسان پیدائش سے لے کر مرنے تک ایمان و کفر کی آزمائش سے گزر تاہے۔

(7) غصہ کے مختلف مراحل ہیں۔

(8) قرض کا لین دین،
کس انداز سے ہو۔

(9) غصہ کی حالت میں انسان کیا کرے؟
(10) دنیا سے اس کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے۔

(سند میں (علی بن زید بن جدعان) ضعیف ہیں،
اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے،
لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں،
دیکھیے: (الصحیحة: 486،
و 911)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2191