صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
13. باب اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِيلِ:
باب: قاتلوں کو مقتول کا سامان دلانا۔
حدیث نمبر: 4568
وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا لِلنَّاسِ؟، فَقُلْتُ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْ حَقِّهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لَا هَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ، فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ "، فَأَعْطَانِي، قَالَ: فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِيهِ أُضَيْبِعَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعُ أَسَدًا مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ.
امام مالک بن انس کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن سعید نے عمر بن کثیر بن افلح سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابومحمد سے اور انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچی۔ کہا: میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جو مسلمانوں کے ایک آدمی پر غالب آ گیا تھا، میں گھوم کر اس کی طرف بڑھا حتی کہ اس کے پیچھے آ گیا اور اس کی گردن کے پٹھے پر وار کیا، وہ (اسے چھوڑ کر) میری طرف بڑھا اور مجھے اس زور سے دبایا کہ مجھے اس (دبانے) سے موت کی بو محسوس ہونے لگی، پھر اس کو موت نے آ لیا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس کے بعد میری حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس پلٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: "جس نے کسی کو قتل کیا، (اور) اس کے پاس اس کی کوئی دلیل (نشانی وغیرہ) ہو تو اس (مقتول) سے چھینا ہوا سامان اسی کا ہو گا۔" کہا: تو میں کھڑا ہوا اور کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔ کہا: تو میں کھڑا ہوا اور کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے تیسری بار یہی فرمایا۔ کہا: میں پھر کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوقتادہ! تمہارا کیا معاملہ ہے؟" تو میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا۔ اس پر لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے سچ کہا ہے۔ اس مقتول کا چھینا ہوا سامان میرے پاس ہے، آپ انہیں ان کے حق سے (دستبردار ہونے پر) مطمئن کر دیجیے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر سے، جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑائی کرتا ہے، نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے مقتول کا چھینا ہوا سامان تمہیں دے دیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہوں نے سچ کہا: وہ انہی کو دے دو۔" تو اس نے (وہ سامان) مجھے دے دیا، کہا: میں نے (اسی سامان میں سے) زرہ فروخت کی اور اس (کی قیمت) سے (اپنی) بنو سلمہ (کی آبادی) میں ایک باغ خرید لیا۔ وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام (کے زمانے) میں بنایا۔ لیث کی حدیث میں ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر قریش کے ایک چھوٹے سے لگڑ بگھے کو عطا نہیں کریں گے۔لیث کی حدیث میں ہے: (انہوں نے کہا) وہ پہلا مال تھا جو میں نے بنایا
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو جب دشمن کے ساتھ ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے (پھر حملہ کیا) تو میں نے ایک مشرک آدمی کو دیکھا، وہ ایک مسلمان پر غلبہ پا رہا ہے تو میں اس کی طرف گھوم گیا حتی کہ اس کے پیچھے سے آ گیا اور اس کے شانہ کے پٹھے پر تلوار ماری اور وہ میری طرف بڑھا اور مجھے اس قدر زور سے بھینچا کہ مجھے موت نظر آنے لگی، پھر اسے موت نے آ لیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا، لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا، اللہ کو یہی منظور ہے، پھر لوگ واپس پلٹے، (دشمن کے مقابلہ میں آئے اور جنگ کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہے اور اس پر شہادت موجود ہے تو مقتول سے چھینا ہوا مال اس (قاتل) کو ملے گا۔ تو میں کھڑا ہو گیا، پھر میں نے سوچا، میرے حق میں گواہی کون دے گا؟ اس لیے میں بیٹھ گیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات دہرائی تو میں کھڑا ہو گیا، پھر میں نے اپنے آپ سے پوچھا، میرے حق میں گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بات فرمائی، تیسری مرتبہ تو میں کھڑا ہوا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ اے ابو قتادہ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل واقعہ سنا دیا تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! اس نے سچ کہا ہے، اس مقتول سے چھینا ہوا مال میرے پاس ہے تو اس کو اس کے حق کے سلسلہ میں راضی کر دیں کہ یہ مجھے بخوشی دے دے۔ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! ایسی صورت میں، آپ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کی طرف اس لیے رخ نہ فرمائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی سلب تجھے دے دیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر نے سچ کہا، سلب اسے دے دو۔ تو اس نے سلب مجھے دے دی تو میں نے وہ زرہ فروخت کر کے اس کے عوض بنو سلمہ میں ایک باغ خرید لیا اور وہ سب سے پہلا مال تھا، جو میں نے اسلام کے دور میں حاصل کیا اور لیث کی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہرگز نہیں، آپ وہ مال قریش کی ایک لومڑی کو نہیں دیں گے کہ اس کی خاطر اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظرانداز کر دیں اور لیث کی حدیث میں ہے، وہ پہلا مال تھا جو میں نے سمیٹا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4568  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جولة:
گردش اور گھومنا یعنی شکست کھا گئے،
یہ وہ دستہ تھا،
جس میں آپ اور آپ کے محافظ نہ تھے۔
(2)
علارجلا:
ایک آدمی پر غلبہ پایا،
اس کے قتل کے درپے ہوا۔
(3)
علي حبل عاتقه:
اس کے شانہ کے پٹھے پر تلوار ماری اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا۔
(4)
لاهاالله اذا:
یعنی لاوالله اذن،
نہیں،
اللہ کی قسم،
ایسی صورت میں یہ نہیں ہو گا۔
(5)
مخرف:
باغ۔
(6)
تاثلته:
اس کو سمیٹا،
حاصل کیا۔
(7)
اضيبع:
ضبع کی تصغیر ہے،
لومڑی،
جو بزدلی اور کمزوری میں معروف ہے اور گر اصيبغ ہو تو گرگٹ کو کہتے ہیں یا ایک کمزور قسم کی انگوری کو کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے جس آدمی کو قتل کیا،
وہ مسلمان کی گھات میں تھا اور مسلمان ایک دوسرے شخص سے لڑ رہا تھا،
روایت کے اختصار کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا ہے،
شاید مسلمان کے مدمقابل مشرک کو مارا،
بخاری کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے،
اس طرح وہ کلمات جو یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیے گئے ہیں،
بخاری شریف میں اس کے برعکس یہ ہے کہ ابو قتادہ نے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،
امر اللہ،
اللہ کی مشیت نافذ ہوتی ہے اور آخر میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو دو گواہ عبداللہ بن قیس اور اسود بن خزاعی رضی اللہ عنہ مل گئے تھے،
لیکن سلب اٹھانے والے نے خود ہی اقرار کر لیا۔
تکملہ ج 3،
ص 59۔
اور حضرت ابو قتادہ کی حمایت کرنے والے اور اس کو شیر قرار دینے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس معاملہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی،
مقتول کی سلب (جو کچھ اسلحہ،
سواری اور لباس وغیرہ مقتول کے پاس تھا)

وہ ہر صورت میں قاتل کو ملے گا،
اس حدیث کا یہی تقاضا ہے اور امام شافعی،
امام لیث،
احمد،
اوزاعی،
اسحاق،
ابو عبید،
ابو ثور کا یہی نظریہ ہے،
لیکن امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک سلب سے پانچواں حصہ نہیں لیا جائے گا،
جبکہ اوزاعی کے نزدیک پانچواں حصہ نکالنے کے بعد،
سلب قاتل کو ملے گی اور امام اسحاق کے نزدیک امیر کو اختیار ہے،
اگر وہ سلب کو زیادہ خیال کرے تو خمس لے سکتا ہے۔
(المغني ج 13،
ص 69)

امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک اور ایک قول کی رو سے امام احمد کے نزدیک،
سلب قاتل کو بطور عطیہ اور انعام ملے گی،
امام ابو حنیفہ اس صورت میں جب امیر نے غنیمت کے حصول سے پہلے یہ اعلان کر دیا ہے کہ قاتل کو سلب ملے گی اور امام مالک کے نزدیک،
امام غنیمت کے حاصل کرنے کے بعد،
بطور نفل (زائد حصہ)
دے گا۔
(المغني،
ج 13،
ص 70-71)

صحیح نظریہ یہی ہے کہ سلب مکمل طور پر قاتل کا حق ہے۔
(زاد المعاد،
ج 3،
ص 432)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4568