صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
14. باب التَّنْفِيلِ وَفِدَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِالأَسَارَى:
باب: قیدیوں کے ذریعے مسلمان قیدیوں کو آزاد کروانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4573
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " غَزَوْنَا فَزَارَةَ، وَعَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمَاءِ سَاعَةٌ، أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَعَرَّسْنَا ثُمَّ شَنَّ الْغَارَةَ، فَوَرَدَ الْمَاءَ فَقَتَلَ مَنْ قَتَلَ عَلَيْهِ وَسَبَى، وَأَنْظُرُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِمُ الذَّرَارِيُّ فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ بَيْنهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، فَلَمَّا رَأَوْا السَّهْمَ وَقَفُوا، فَجِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ وَفِيهِمُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، قَالَ: الْقَشْعُ النِّطَعُ مَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَسُقْتُهُمْ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِمْ أَبَا بَكْرٍ، فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، ثُمَّ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَدِ فِي السُّوقِ، فَقَالَ لِي: يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ، فَقُلْتُ: هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَفَدَى بِهَا نَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا أُسِرُوا بِمَكَّةَ ".
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے بنوفزارہ سے جنگ لڑی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سربراہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر بنایا تھا، جب ہمارے اور چشمے کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں حکم دیا اور رات کے آخری حصے میں ہم اتر پڑے، پھر انہوں نے دھاوا بول دیا اور پانی پر پہنچ گئے، میں نے ان لوگوں کی ایک قطار سی دیکھی، اس میں عورتیں اور بچے تھے، مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے، چنانچہ میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے (انہیں یقین ہو گیا کہ وہ تیر کا نشانہ بنیں گے)، میں انہیں ہانکتا ہوا لے آیا، ان میں بنوفزارہ کی ایک عورت تھی، اس (کے جسم) پر رنگے ہوئے چمڑے کی چادر تھی۔۔ قَشع، چمڑے کی بنی ہوئی چادر ہوتی ہے۔۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی۔ میں نے انہیں آگے لگایا حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا، انہوں نے اس کی بیٹی مجھے انعام میں دے دی۔ ہم مدینہ آئے اور میں نے (ابھی تک) اس کا کپڑا نہیں کھولا تھا کہ بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی، آپ نے فرمایا: "سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے اور (ابھی تک) میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا، پھر اگلے دن بازار (ہی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: "سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، اللہ تمہارے باپ کو برکت دے!" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ آپ کے لیے ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ بھیج دیا اور اس کے بدلے مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو چھڑا لیا جو مکہ میں قید کیے گئے تھے
حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بنو فزارہ سے جنگ کرنے کے لیے نکلے، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے امیر تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر مقرر کیا تھا، جب ہمارے اور پانی کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، پھر انہوں نے سخت حملہ کیا اور پانی پر پہنچ گئے، اس پر قابل قتل لوگوں کو قتل کیا اور (دوسروں کو) قیدی بنایا اور میں ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا، جس میں ان کے بیوی بچے تھے تو مجھے خطرہ پیدا ہوا، وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے، اس لیے میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان تیر پھینکا، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے اور میں ان کو ہانک لایا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت تھی، جو پرانی پوستین (چمڑے کی قمیص) اوڑھے ہوئے تھی، اس کے ساتھ اس کی انتہائی خوبصورت بیٹی تھی، میں نے ان کو ہانکا حتی کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے آیا تو ابوبکر نے انعام کے طور پر اس کی بیٹی مجھے دے دی تو ہم مدینہ پہنچ گئے، لیکن میں نے اس کا ابھی تک کپڑا نہیں اٹھایا تھا تو بازار میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! یہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! مجھے یہ بہت پسند ہے اور میں نے اس سے تعلقات بھی قائم نہیں کیے، پھر اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مجھے بازار میں مل گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے سلمہ! عورت مجھے ہبہ کر دو، تم کتنے اچھے ہو۔ تو میں نے عرض کیا، یہ آپ کی ہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں اٹھایا تو آپ نے اسے مکہ والوں کے ہاں، کچھ مسلمان لوگوں کے فدیہ کے طور پر بھیج دیا، جو مکہ میں قیدی بنا لیے گئے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2846  
´(جنگی) قیدیوں کو فدیہ میں دینے کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا! یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2846]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مال غنیمت تمام مجاہدین میں برابر تقسیم کیا جاتا ہے تاہم بہتر کارکردگی دکھانے والوں کو اس کے علاوہ بھی انعام دیا جاسکتا ہے اسے نفل کہتے ہیں۔

(2)
امام (خلیفہ یا کمانڈر)
کسی مجاہد کو دیا ہوا انعام واپس لے سکتا ہے جب اسے واپس لینے میں کوئی بڑی مصلحت ہو۔

(3)
مسلمانوں قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کافر قیدیوں کو آزاد کرنا جائز ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ شرعاً درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2846   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2697  
´جوان قیدیوں کو الگ الگ رکھنا جائز ہے۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں، تو میں نے ایک تیر چلائی، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہو گئے، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی، وہ کھال پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2697]
فوائد ومسائل:

مجاہد کو اضافی انعامات (نفل غنیمت) خمس نکالنے سے پہلے دیئے جاتے ہیں۔


قیدی اگر بڑی عمر کے ہوں۔
تو قریبی رشتہ داروں میں بھی تفریق کی جا سکتی ہے۔


رسول اللہ ﷺ کسی مسلمان کا مال اس کی ولی رضا مندی کے بغیر لینا پسند نہ کرتے تھے۔


لونڈیوں سے مباشرت جائز ہے۔
خواہ مشرک ہی ہوں۔
مگر استبراء (ایک حیض آنے) کے بعد۔


جس طرح بھی بن پڑے مسلمان قیدیوں کو آزاد کرایا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2697   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4573  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شن الغاره:
ان پر زوردار ہر طرف سے حملہ کیا۔
عنق:
جماعت۔
(2)
قشع:
پرانی پوستین (چمڑے کی قمیص)
۔
(3)
ماكشف لها ثوبا:
یعنی میں اس سے لطف اندوز نہیں ہو یا اس سے تعلقات قائم نہیں کیے۔
(4)
لله ابوك:
جب بیٹا قابل تعریف کام کرے تو تعریف و توصیف کے لیے یہ کلمہ استعمال کرتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
بنو فزارہ سے اس جنگ کے امیر لشکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے،
لیکن حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی اس علاقہ سے آشنا ہونے کی بناء پر بطور امیر ساتھ تھے،
اس لیے اس کو غزوہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے بھی تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
غزوہ 7ھ میں پیش آیا اور اس کے قیدیوں سے ایک خوبصورت لڑکی بطور انعام حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپﷺ نے مسلمانوں کے مفاد اور بہتری کے لیے اسے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے مانگ لیا تاکہ اس کو مسلمان قیدیوں کے فدیہ کے طور پر دے کر ان کو چھڑایا جا سکے،
جس سے معلوم ہوا مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے بطور فدیہ کافر قیدی دینا جائز ہے اور بالغ بیٹی کو ماں سے الگ کرنا جائز ہے اور یہ اتفاقی اجماعی مسئلہ ہے اور یہ لڑکی اہل مکہ کو دی گئی اور وہاں حزن بن ابی وھب کے ہاتھ لگی،
کیونکہ وہ اس وقت کافر تھا،
فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4573