صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
15. باب حُكْمِ الْفَيْءِ:
باب: جو مال کافروں کا بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4577
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ : أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: " أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَخُذْهُ، فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَالزُّبَيْرِ ، وَسَعْدٍ ؟، فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ ، وَعَلِيٍّ ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ: الْقَوْمُ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ : اتَّئِدَا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ سورة الحشر آية 7، مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا، قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ "، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَعْمَلَا فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ، قَالَ: أَكَذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَا وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ،
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا، دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا۔ کہا: میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا، انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی، تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے مال (مالک)! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے، اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو۔ کہا: میں نے کہا: اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں (تو کیسا رہے؟) انہوں نے کہا: اے مال! تم لے لو۔ کہا: (اتنے میں ان کے مولیٰ) یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان، عبدالرحمان بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم (کے ساتھ ملنے) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو اس نے ان کو اجازت دی۔ وہ اندر آ گئے، وہ پھر آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما (کے ساتھ ملنے) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی۔ تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المومنین! میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ کہا: اس پر ان لوگوں نے کہا: ہاں، امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو (جھگڑے کے عذاب سے) راحت دلا دیں۔۔ مالک بن اوس نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا۔۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں رکو، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا"؟ ان سب نے کہا: ہاں۔ پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "تمہارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم جو کچھ چھوڑیں گے، صدقہ ہو گا"؟ ان دونوں نے کہا: ہاں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی، اس نے فرمایا ہے: "جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے"۔۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں۔۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے، اللہ کی قسم! آپ نے (اپنی ذات کو) تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا، حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے، پھر جو باقی بچ جاتا اسے (بیت المال کے) مال کے مطابق (عام لوگوں کے فائدے کے لیے) استعمال کرتے۔ انہوں نے پھر کہا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہ کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی (اور کہا): کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے، آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم جو چھوڑیں گے، صدقہ ہے۔" تو تم نے انہیں جھوٹا، گناہ گار، عہد شکن اور خائن خیال کیا تھا اور اللہ جانتا ہے وہ سچے، نیکوکار، راست رَو اور حق کے پیروکار تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا، گناہ گار، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکوکار، راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں، میں اس کا منتظم بنا، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے۔ تم نے کہا: یہ (اموال) ہمارے سپرد کر دو۔ میں نے کہا: اگر تم چاہو تو میں اس شرط پر یہ تم دونوں کے حوالے کر دیتا ہوں کہ تم دونوں پر اللہ کے عہد کی پاسداری لازمی ہو گی، تم بھی اس میں وہی کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو تم نے اس شرط پر اسے لے لیا۔ انہوں نے پوچھا: کیا ایسا ہی ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا۔ ہاں۔ انہوں نے کہا: پھر تم (اب) دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں۔ نہیں، اللہ کی قسم! میں قیامت کے قائم ہونے تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور فیصلہ نہیں کروں گا۔ اگر تم اس کے انتظام سے عاجز ہو تو وہ مال مجھے واپس کر دو
حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے پیغام ارسال کیا تو میں دن چڑھنے کے بعد ان کے پاس آیا تو میں نے انہیں اپنے گھر میں چار پائی کے بان پر چمڑے کے تکیہ کے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے پایا تو انہوں نے مجھے کہا، اے مال یعنی اے مالک رضی اللہ تعالی عنہ تیری قوم کے کچھ لوگ تیزی سے آئے تھے میں نے انہیں تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے تو وہ لے لو اور ان میں بانٹ دو، میں نے کہا، اے کاش، آپ کسی اور کو حکم دیتے! انہوں نے کہا، اے مال، اسے لے لو، اتنے میں (ان کا غلام) یرفا آ گیا اور کہنے لگا، اے امیر المؤمنین! کیا آپ عثمان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ تعالی عنہم کو اجازت دینے کے لیے تیار ہیں؟ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہاں، تو اس نے انہیں اجازت دے دی، وہ اندر آ گئے، پھر غلام دوبارہ آ کر کہنے لگا کیا آپ عباس اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اجازت دینے پر رضامند ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں، تو اس نے ان دونوں کو اجازت دے دی تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر کہا، اے امیر المؤمنین، آپ میرے اور اس جھوٹے گناہ گار، عہد شکن اور خائن کا فیصلہ کر دیں، باقی صحابہ نے بھی ان کی تائید کی کہ اے امیر المؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ان کو راحت بخشیے، حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے (عباس، علی رضی اللہ تعالی عنہما نے) انہیں آگے بھیجا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ذرا ٹھہر جاؤ، میں تم سے اس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں، جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا ہم نے جو کچھ چھوڑا صدقہ ہو گا؟ سب نے کہا، جی ہاں، پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، جس کی اجازت سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا، جو کچھ ہم نے چھوڑا، وہ صدقہ ہو گا۔ دونوں نے کہا، ہاں، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ عزت و جلال والے نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چیز خاص کی تھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے لیے خاص نہیں کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ نے بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول کی طرف جو کچھ لوٹایا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے،
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4577  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تعالي النهار:
سورج بلند ہو گیا،
دن چڑھ آیا۔
(2)
مفضيا الي رماله:
ان کے اور چارپائی کے بان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی،
یعنی بستر کے بغیر کھجور کے بان پر تشریف فرما تھے۔
(3)
دف اهل ابيات:
کچھ گھرانے تیزی اور سرعت کے ساتھ یا سہولت و آسانی کے ساتھ چل کر آئے،
یہ ان کی قوم بنو نصر بن معاویہ کے گھرانے تھے،
جو کسی مصیبت کی وجہ سے مدینہ آئے۔
(4)
رضخ:
تھوڑا سا عطیہ۔
(5)
ارحهم:
انہیں اختلاف اور جھگڑے سے،
راحت بخشیے،
اتئدا،
صبر و تحمل سے کام لو۔
(6)
انشدكم بالله:
اللہ کے نام سے سوال کرتا ہوں۔
(7)
لانورث:
ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا یا ہم کسی کو وارث نہیں ٹھہرائیں گے۔
فوائد ومسائل:
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بڑے ہونے کی حیثیت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرز عمل کو اپنے تصور میں درست خیال نہ کرتے ہوئے،
اختلاف و مخاصمت کی بنا پر غصہ کی حالت میں سخت الفاظ سے یاد کیا اور ظاہر ہے،
اختلاف اور جھگڑے کے وقت غیظ و غضب کی حالت میں جو کچھ کہا جاتا ہے،
وہ حقیقت پر محمول نہیں ہوتا،
مثلا باپ غصہ کی حالت میں اپنی اولاد کے لیے بہت ہی مناسب الفاظ کہہ دیتا ہے حتی کہ اس کو حرام زادہ قرار دے دیتا ہے تو کوئی بھی اس کو حقیقت پر محمول نہیں کرتا،
اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما دونوں کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور مجھے ایسا ایسا قرار دیتے ہو،
حالانکہ انہوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا تھا،
مقصد یہ تھا کہ تمہارا رویہ ایسا رہا گویا کہ ہم تمہارے نزدیک ایسے ایسے تھے،
جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کہ ہم نے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور لائحہ عمل کی پابندی کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ کے بعد آپ کے مال کو آپ کے ورثاء میں تقسیم نہیں اور تم سب اس کا اقرار اور اعتراف کرتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی وارث نہیں بن سکتا،
کیونکہ تمام امت رسول کا خاندان ہے،
اس لیے اس کی میراث میں سب کا حصہ ہے اور وہ سب کے مفاد میں خرچ ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4577