صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
28. باب فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ:
باب: جنگ حنین کا بیان۔
حدیث نمبر: 4615
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ، لِلْبَرَاءِ " يَا أَبَا عُمَارَةَ : أَفَرَرْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟، قَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا لَيْسَ عَلَيْهِمْ سِلَاحٌ أَوْ كَثِيرُ سِلَاحٍ، فَلَقُوا قَوْمًا رُمَاةً لَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ جَمْعَ هَوَازِنَ، وَبَنِي نَصْرٍ، فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ، فَأَقْبَلُوا هُنَاكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَقُودُ بِهِ، فَنَزَلَ فَاسْتَنْصَرَ، وَقَالَ: " أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ، ثُمَّ صَفَّهُمْ ".
ابوخیثمہ نے ہمیں ابواسحاق سے خبر دی، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ تک نہیں پھیرا، البتہ آپ کے ساتھیوں میں سے چند نوجوان اور جلد باز (جنگ کے لیے) نہتے نکلے تھے جن (کے جسم) پر اسلحہ یا بڑا اسلحہ نہیں تھا، تو ان کی مڈبھیڑ ایسی تیر انداز قوم سے ہوئی جن کا کوئی تیر (زمین) پر نہ گرتا تھا، (نشانے پر لگتا تھا) وہ بنو ہوازن اور بنو نضر کے جتھے تھے، انہوں نے ان (نوجوانوں) کو اس طرح سے تیروں سے چھیدنا شروع کیا کہ کوئی نشانہ خطا نہ جاتا تھا، پھر وہ لوگ وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بڑھے، آپ اپنے سفید خچر پر تھے اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسے چلا رہے تھے، آپ نیچے اترے (اللہ سے) مدد مانگی اور فرمایا: "میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں" پھر آپ نے (نئے سرے سے) ان کی صف بندی کی (اور پانسہ پلٹ گیا
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا اے ابو عمارہ! کیا تم حنین کے دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت نہیں دکھائی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوجوان ساتھی اور جلد باز، نہتے، جن کے پاس دفاعی اسلحہ نہ تھا یا زیادہ اسلحہ نہ تھا، آگے بڑھے اور انتہائی ماہر تیر انداز لوگوں سے، جن کا کوئی تیر نشانہ سے چوکتا نہیں تھا یعنی ہوازن اور بنو نصر سے بھڑ گئے اور انہوں نے یکبار اس طرح ان پر تیر پھینکے کہ ان کا کوئی تیر نشانہ سے چوکتا نہ تھا تو یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر تھے اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ اس کو آگے سے پکڑے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اترے اللہ تعالیٰ سے نصرت (مدد) طلب کی اور فرمایا: میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آنے والوں کی صف بندی کی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4615  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَخِفَّائُهُم:
خفيف کی جمع ہے،
جلد باز،
جوشیلہ۔
(2)
حُسَّر:
حاسر کی جمع ہے،
ننگے سر مراد ہے،
جن کے پاس دفاعی اسلحہ نہ تھا۔
(3)
رَشَقُوهُم رَشقًا:
انہوں نے انتہائی زور سے تیر اندازی کی۔
فوائد ومسائل:
چونکہ جنگ حنین میں سب لوگ نہیں بھاگے تھے،
خاص طور پر لشکر کا سپہ سالار،
دشمن کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا،
آگے بڑھ رہا تھا،
اس لیے حضرت براء رضی اللہ عنہ نے،
بعض صحابہ کے بھاگنے کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ وہ بھی آواز سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹ آئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت،
والد کے بجائے عبدالمطلب کی طرف کی،
کیونکہ وہ معروف و مشہور شخصیت تھی اور لوگوں میں یہ بات پھیلی ہوئی تھی کہ عبدالمطلب کی اولاد میں ایک نبی ہو گا،
جو غالب آئے گا،
اور ایک عظیم مقام و مرتبہ کا حامل ہو گا،
اس طرح آپ نے ان کو یاد دلایا،
میں وہی ہوں،
اس لیے غالب آ کر رہوں گا،
میدان سے بھاگنے والا نہیں ہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4615