صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
28. باب فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ:
باب: جنگ حنین کا بیان۔
حدیث نمبر: 4616
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ الْمِصِّيصِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى الْبَرَاءِ، فَقَالَ: أَكُنْتُمْ وَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ يَا أَبَا عُمَارَةَ ؟، فَقَالَ: " أَشْهَدُ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا وَلَّى، وَلَكِنَّهُ انْطَلَقَ أَخِفَّاءُ مِنَ النَّاسِ وَحُسَّرٌ إِلَى هَذَا الْحَيِّ مِنْ هَوَازِنَ وَهُمْ قَوْمٌ رُمَاةٌ، فَرَمَوْهُمْ بِرِشْقٍ مِنْ نَبْلٍ كَأَنَّهَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ، فَانْكَشَفُوا فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ يَقُودُ بِهِ بَغْلَتَهُ، فَنَزَلَ وَدَعَا وَاسْتَنْصَرَ وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ، اللَّهُمَّ نَزِّلْ نَصْرَكَ "، قَالَ الْبَرَاءُ: كُنَّا وَاللَّهِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِي بِهِ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِي يُحَاذِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
زکریا نے ابواسحاق سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک آدمی حضرت براء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا: ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے رخ تک نہیں پھیرا، کچھ جلد باز لوگ اور نہتے ہوازن کے اس قبیلے کی طرف بڑھے، وہ تیر انداز لوگ تھے، انہوں نے ان (نوجوانوں) پر اس طرح یکبارگی اکٹھے تیر پھینکے جیسے وہ تڈی دل ہوں۔ اس پر وہ بکھر گئے، اور وہ (ہوازن کے) لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے، ابوسفیان (بن حارث) رضی اللہ عنہ آپ کے خچر کو پکڑ کر چلا رہے تھے، تو آپ نیچے اترے، دعا کی اور (اللہ سے) مدد مانگی، آپ فرما رہے تھے: "میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔" حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کی اوٹ لیتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قدم ملا کر کھڑا ہوتا
ابو اسحاق سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگا، کیا تم حنین کے دن بھاگ گئے تھے؟ اے ابو عمارۃ رضی اللہ تعالی عنہ تو انہوں نے جواب دیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں دکھائی، لیکن کچھ جلد باز لوگ، غیر مسلح اس ہوازن قبیلہ کی طرف چلے اور وہ تیر انداز لوگ تھے تو انہوں نے ان پر تیروں کی باڑھ اس طرح ماری گویا وہ ٹڈی دل ہے تو یہ لوگ سامنے سے ہٹ گئے اور یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آ گئے اور ابو سفیان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے خچر آگے سے پکڑے ہوئے تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اترے، دعا کی، مدد چاہی اور فرمانے لگے: میں نبی ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں، اے اللہ! اپنی مدد اتار۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4616  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رجل جراد:
ٹڈی دل،
ٹڈیوں کی جماعت و لشکر۔
(2)
انكَشَفُوا:
بکھر گئے یا شکست کھا گئے۔
(3)
اِحمَرَّ البَأسُ:
لڑائی سرخ ہو گئی،
یعنی زور پکڑ گئی،
شدت اختیار کر گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4616