صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
28. باب فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ:
باب: جنگ حنین کا بیان۔
حدیث نمبر: 4617
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ : وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ، أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟، فَقَالَ الْبَرَاءُ: وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرَّ، وَكَانَتْ هَوَازِنُ يَوْمَئِذٍ رُمَاةً وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمُ انْكَشَفُوا، فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنَائِمِ فَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّهَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا وَهُوَ، يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ "،
شعبہ نے ہمیں ابواسحاق سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے (اس وقت) حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا جب (قبیلہ) قیس کے ایک آدمی نے ان سے پوچھا: کیا آپ لوگ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگے تھے؟ تو حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے تھے، اس زمانے میں ہوازن کے لوگ (ماہر) تیر انداز تھے، جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ بکھر گئے، پھر ہم غنیمتوں کی طرف متوجہ ہو گئے تو وہ تیروں کے ساتھ ہمارے سامنے آ گئے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سفید خچر پر دیکھا، ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اس کی باگ تھامے ہوئے تھے اور آپ فرما رہے تھے: "میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک قیسی آدمی نے سوال کیا، کیا تم حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ تو حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں بھاگے تھے اور ہوازن کے لوگ ماہر تیر انداز تھے اور ہم نے جب ان پر حملہ کیا تو وہ شکست کھا گئے اور ہم غنیمتوں پر ٹوٹ پڑے، انہوں نے ہمارا استقبال تیروں سے کیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سفید خچر پر دیکھا اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ اس کے لگام کو تھامے ہوئے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے میں نبی ہوں، جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4617  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں بھگدڑ اس وقت مچی جب وہ غنیمت سمیٹنے میں مشغول ہو گئے،
حالانکہ یہ صورت حال نہیں ہے،
بھگدڑ پہلے مچی ہے،
پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم رسول اللہﷺ کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن پر حملہ کیا،
جس سے دشمن شکست کھا کر تتر بتر ہو گیا اور مسلمانوں نے اس کا تعاقب کیا،
جیسا کہ تفصیلی روایات میں آیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4617