صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
39. باب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِينَ وَالْمُنَافِقِينَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں اور منافقوں کے ہاتھ سے جو تکلیف پائی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4650
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ، إِذْ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَا جَزُورٍ فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَخَذَتْهُ عَنْ ظَهْرِهِ وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ ذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَأَ مِنْ قُرَيْشٍ، أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ، وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، أَوْ أُبَيَّ بْنَ خَلَفٍ شُعْبَةُ الشَّاكُّ، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ، غَيْرَ أَنَّ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَيًّا تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ فَلَمْ يُلْقَ فِي الْبِئْرِ "،
شعبہ نے کہا: میں نے ابو اسحاق سے سنا، وہ عمرو بن میمون سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ (ایک بار) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے اور آپ کے گرد قریش کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح کی ہوئی اونٹنی کی بچے والی جھلی لے کر آیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر پھینک دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سجدے سے) سر نہ اٹھایا، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور اس جھلی کو آپ کی پشت سے اٹھایا اور جن لوگوں نے یہ حرکت کی تھی ان کو بددعا دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے بارے میں) فرمایا: "اے اللہ! قریش کے اس گروہ پر گرفت فرما، ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف یا اُبی بن خلف۔۔ شعبہ کو شک ہے۔۔ پر گرفت فرما!" (حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے ان کو دیکھا، وہ جنگ بدر کے دن قتل کیے گئے اور ان کو کنویں میں ڈال دیا گیا، البتہ امیہ بن خلف یا اُبی بن خلف کے جوڑ جوڑ کٹ چکے تھے، اسے (گھسیٹ کر) کنویں میں نہیں ڈالا جا سکا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کچھ قریشی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک عقبہ بن ابی معیط اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لایا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر پھینک دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر نہ اٹھایا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیں اور انہوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اٹھایا اور یہ حرکت کرنے والوں کو بددعا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ، قریش کی جمیعت پر گرفت فرما، ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف (شعبہ کو شک ہے) پر گرفت فرما۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے ان کو بدر کے دن مقتول دیکھا اور انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا گیا، مگر امیہ یا ابی کے جوڑ الگ الگ ہو گئے تو اسے کنویں میں نہ ڈالا گیا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3185  
´مشرکوں کی لاشوں کو کنویں میں پھینکوانا اور ان کی لاشوں کی (اگر ان کے ورثاء دینا بھی چاہیں تو بھی) قیمت نہ لینا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِذْ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَى جَزُورٍ فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام فَأَخَذَتْ مِنْ ظَهْرِهِ وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَا مِنْ قُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ أَوْ أُبَيَّ بْنَ خَلَفٍ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ غَيْرَ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَيٍّ، فَإِنَّهُ كَانَ رَجُلًا ضَخْمًا فَلَمَّا جَرُّوهُ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ قَبْلَ أَنْ يُلْقَى فِي الْبِئْرِ . . .»
. . . عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ میں (شروع اسلام کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں تھے اور قریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر اسے ڈال دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھا سکے۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے اس اوجھڑی کو ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلا کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بددعا کی کہ اے اللہ! قریش کی اس جماعت کو پکڑ۔ اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کو برباد کر۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب بدر کی لڑائی میں قتل کر دئیے گئے۔ اور ایک کنویں میں انہیں ڈال دیا گیا تھا۔ سوا امیہ یا ابی کے کہ یہ شخص بہت بھاری بھر کم تھا۔ جب اسے صحابہ نے کھینچا تو کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اس کے جوڑ جوڑ الگ ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3185]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3185 باب: «بَابُ طَرْحِ جِيَفِ الْمُشْرِكِينَ فِي الْبِئْرِ وَلاَ يُؤْخَذُ لَهُمْ ثَمَنٌ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے وہ مشرکین کی لاشوں کی قیمت وصول نہ کرنے پر دلالت کرتا ہے، مگر جو حدیث پیش کی ہے اس میں قیمت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح قیمت کا ذکر موجود ہے مگر وہ آپ رحمہ اللہ کی شرائط کے مطابق نہ تھی اسی لئے آپ نے یہاں اس کا ذکر نہیں فرمایا، مگر ترجمۃ الباب کے ذریعے اس کا دقیق اشارہ فرما دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أشار به إلى حديث ابن عباس رضى الله عنه أن المشركين أرادوا أن يشتروا جسد رجل من المشركين فأبي النبى صلى الله عليه وسلم أن يبعيهم . . . و ذكر ابن إسحاق فى المغازي، أن المشركين كانوا سألوا النبى صلى الله عليه وسلم أن يبعيهم جسد نوفل بن عبدالله بن المغيرة، و كان اقتحم الخندق، فقال النبى صلى الله عليه وسلم لا حاجة لنا بثمنه ولا جسده.» [فتح الباري، ج 6، ص: 348]
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے: مشرکین نے ارادہ کیا کہ مشرکین میں سے ایک آدمی کی نعش (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) خریدیں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا (مشرکین کی نعش کو فروخت کرنے سے)۔ ابن اسحاق نے «المغازي» میں ذکر کیا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا نوفل بن عبداللہ کی نعش کے بارے میں کہ اس کی نعش مشرکین کو بیچ دی جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمیں نہ ہی اس کی نعش کی ضرورت ہے اور نہ ہی (اس کی نعش) کی رقم کی ضرورت ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ظاہر (ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ) امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچی ابن ابی لیلی سے کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتول کی لاشوں کو فروخت کر دیں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا، لیکن یہ حدیث (جو کہ ترمذی کی ہے، رقم: 2715) امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے۔ [المتواري، ص: 199]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ ترمذی اور ابن ہشام کی کتاب المغازی میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاشوں کی قیمت وصول کرنے سے انکار کر دیا، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی اشارہ انہیں روایات کی طرف ہے، چونکہ یہ احادیث آپ کی شرائط پر نہ تھیں اسی لئے آپ نے دلیل کے طور پر ان کا ذکر نہیں فرمایا، مگر ترجمۃ الباب کے ذریعے اس کی طرف اشارہ فرما دیا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 467   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 308  
´حلال جانوروں کے لید، گوبر کپڑوں میں لگ جانے کا بیان۔`
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، اور قریش کے کچھ شرفاء بیٹھے ہوئے تھے، اور انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا، تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ۱؎: تم میں سے کون ہے جو یہ خون آلود اوجھڑی لے کر جائے، پھر کچھ صبر کرے حتیٰ کہ جب آپ اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیں، تو وہ اسے ان کی پشت پر رکھ دے، تو ان میں کا سب سے بدبخت (انسان) کھڑا ہوا ۲؎، اور اس نے اوجھڑی لی، اور آپ کے پاس لے جا کر انتظار کرتا رہا، جب آپ سجدہ میں چلے گئے تو اس نے اسے آپ کی پشت پر ڈال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمسن بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اسے ہٹایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے تین مرتبہ کہا: «اللہم عليك بقريش» اے اللہ! قریش کو ہلاک کر دے، «اللہم عليك بقريش»، ‏ «اللہم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط» اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط سے تو نپٹ لے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سات ۳؎ لوگوں کا گن کر نام لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، میں نے انہیں بدر کے دن ایک اوندھے کنویں میں مرا ہوا دیکھا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 308]
308۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ خبیث رائے پیش کرنے والا ابوجہل تھا جسے بعضھم کہا گیا ہے اور عمل کرنے والا عقبہ بن ابی معیط تھا جسے أشقاھم سے موسوم کیا گیا ہے۔
➋ امام صاحب نے اس روایت سے ماکول اللحم کے گوبر کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اور یہ درست ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود نماز جاری رکھی، بعد میں اعادہ بھی نہیں کیا، حالانکہ بعد میں آپ کو یقیناًً پتا چل گیا تھا کہ یہ فلاں چیز ہے۔ جو لوگ اسے پلید سمجھتے ہیں، ان میں سے امام مالک رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ایسی چیز اگر نماز کے اندر جسم یا کپڑے کو لگ جائے تو نماز مکمل کی جا سکتی ہے، البتہ اگر نماز سے پہلے لگی ہو تو صفائی ضروری ہے لیکن امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال زیادہ قوی ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اگرچہ جرم ہے، مگر کم از کم یہ ہدایت کا راستہ بند نہیں کرتی، مگر نبی کی گستاخی اور توہین مستقل طور پر ہدایت کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ آپ کی گستاخی کرنے والے وہ سب کے سب کفر پر مرے مگر محض مخالفت کرنے والوں کواللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب فرما دی۔ اہل اللہ سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی گستاخی اللہ کی رحمت و توفیق سے محروم کر دیتی ہے۔ اہل علم کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے۔
➍ جب ظالم کا ظلم حد سے بڑھ جائے تو اس کا نام لے کر بددعا کی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 308   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4650  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تَقَطَّعَت أَوصَالُه:
اس کے جوڑ الگ الگ ہو گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4650