صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
39. باب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِينَ وَالْمُنَافِقِينَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں اور منافقوں کے ہاتھ سے جو تکلیف پائی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4653
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ , قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا، قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟، فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ، فَنَادَانِي، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رُدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ، قَالَ: فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ، وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرِكَ فَمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ".
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ پر کوئی ایسا دن بھی آیا جو اُھد کے دن سے زیادہ شدید ہو؟ آپ نے فرمایا: "مجھے تمہاری قوم سے بہت تکلیف پہنچی، جب میں خود کو ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے لے گیا (یعنی اس کو دعوتِ اسلام دی) لیکن جو میں چاہتا تھا اس نے میری بات نہ مانی، میں غمزدہ ہو کر چل پڑا اور قرن ثعالب پر پہنچ کر ہی میری حالت بہتر ہوئی، میں نے سر اٹھایا تو مجھے ایک بادل نظر آیا، اس نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا، میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے، انہوں نے مجھے آواز دے کر کہا: اللہ عزوجل نے جو کچھ آپ نے اپنی قوم سے کہا وہ اور انہوں نے جو آپ کو جواب دیا وہ سب سن لیا، اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ ان کفار کے متعلق اس کو جو چاہیں حکم دیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا، پھر کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو ا (ٹھا کر) ان کے اوپر رکھ دوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: بلکہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ پر اُحد کے دن سے زیادہ سخت دن گزرا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تیری قوم کی طرف سے بہت تکالیف پہنچی اور سب سے زیادہ تکلیف عقبہ کے دن پہنچی، جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے پیش کیا، (اس کو اسلام کی دعوت دی) تو اس نے میری خواہش کے مطابق میری بات قبول نہ کی اور میں رنجیدہ حالت میں، اپنے سامنے والے رخ پر چل پڑا اور قرن ثعالب پر پہنچ کر میں اپنے آپ میں آیا (غم کی حالت سے نکلا) اور میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے اچانک ایک بادل کو اپنے اوپر سایہ کیے ہوئے پایا، میں نے دیکھا تو اس میں جبریل علیہ السلام تھے تو اس نے مجھے آواز دی اور کہا، اللہ عزوجل نے تیری قوم نے تجھے جو کچھ کہا سن لیا اور جو انہوں نے تمہیں جواب دیا (وہ سن لیا) اور اس نے آپ کے پاس پہاڑوں کا منتظر فرشتہ بھیجا ہے، تاکہ آپ اسے جو چاہیں، ان کے بارے میں حکم دیں،صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا تو مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور مجھے سلام کہا، پھر کہا، اے محمد! اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کا تجھے جواب سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے تیرے رب نے تیرے پاس اس لیے بھیجا کہ آپ مجھے ان کے بارے میں اپنا حکم فرمائیں تو آپ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر دونوں پہاڑوں کو ملا دوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا، بلکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا، جو صرف اللہ کی بندگی کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4653  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يوم العقبة:
اس سے مراد عقبۂ طائف ہے،
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور ابو طالب کی وفات کے بعد دس (10)
نبوت،
شوال میں،
بنو ثقیف کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دینے طائف گئے،
لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدترین سلوک کیا،
اوباش لوگ آپ کے پیچھے لگا دئیے۔
(2)
فلم استفق:
میں اپنے آپ میں نہیں آیا،
مجھے افاقہ نہیں ہوا۔
(3)
قَرنِ الثَّعَالِب:
یہی قرن منازل ہے،
جو اہل نجد کا میقات ہے اور مکہ سے ایک دن رات کے فاصلہ پر ہے۔
(4)
أُطْبِقُ عَلَيْهِم الأَخْشَبَين:
اخشبان سے مراد شارحین نے مکہ کے دو پہاڑ ابوقبيس،
قعيقحان لیے ہیں،
جو مکہ کے شمال و جنوب میں واقع ہیں اور اس وقت مکہ کی آبادی ان دونوں کے درمیان واقع تھی،
لیکن سوال یہ ہے کہ سنگین ترین سلوک جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل طائف نے کیا اور انہیں کے اس بدترین سلوک کے بعد پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اگر آپ یہ چاہیں کہ میں ان کو دو پہاڑوں میں پیس کر رکھ دوں تو میں آپ کی خواہش کے مطابق ان کو پیس کر رکھ دوں گا تو پھر اہل مکہ کو مراد لینا کیوں کر درست ہو سکتا ہے،
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اخشبان مکہ کے دو پہاڑوں کو ان کی مضبوطی اور صلابت کی وجہ سے کہا گیا ہے،
اس لیے مراد یہ ہے کہ مکہ کے ان مضبوط و مستحکم پہاڑوں جیسے پہاڑوں میں،
اہل طائف کو پیس کر رکھ دوں یا مکہ کے ان دو پہاڑوں کو وہاں لے جا کر ان میں پیس دوں،
کیونکہ پہاڑوں کے فرشتہ کے لیے ان پہاڑوں کا وہاں لے جانا مشکل نہ تھا یا پھر یہ مراد لیا جائے کہ بنو ثقیف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بدسلوکی صرف اس لیے کیا کہ آپ کی قوم اہل مکہ نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا،
اگر وہ قبول کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مصائب سے دوچار نہ ہونا پڑتا،
اس لیے اس کا اصل سبب وہ تھے،
اس لیے فرشتہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو میں اہل مکہ کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4653