صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
43. باب غَزْوَةِ خَيْبَرَ:
باب: خیبر کی لڑائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4669
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَنَسَبَهُ غَيْرُ ابْنِ وَهْبٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ رَجُلٌ مَاتَ فِي سِلَاحِهِ وَشَكُّوا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَرْجُزَ لَكَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَعْلَمُ مَا تَقُولُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْتَ، وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا، قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ هَذَا؟، قُلْتُ: قَالَهُ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُونَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ يَقُولُونَ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بنِ الأَكْوَعِ، فَحَدَثَنيِ عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ ذَلِكَ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: حِينَ قُلُتُ إِنَّ نَاسًا يَهَابُونَ الصَّلاةَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمِ: " كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَتَيْنِ " وَأَشَارَ بِإصبَعَيهِ.
ابوطاہر نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبدالرحمان نے خبر دی۔۔ ابن وہب کے علاوہ دوسرے راوی نے ان کا نسب بیان کیا تو (عبدالرحمان) بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہا۔۔ کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: جب خیبر کا دن تھا، میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خوب جنگ لڑی، (اسی اثنا میں) ان کی تلوار پلٹ کر انہی کو جا لگی اور انہیں شہید کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس حوالے سے کچھ باتیں کہیں اور اس معاملے میں شک (کا اظہار کیا) کہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے۔ انہوں نے ان کے معاملے کے بعض پہلوؤں میں شک کیا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے آگے رجزیہ اشعار پڑھوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں جو تم کہنے جا رہے ہو۔ کہا: تو میں نے (یہ رجزیہ اشعار) پڑھے: "اللہ کی قسم! اگر اللہ (کا کرم) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے سچ کہا۔" "ہم پر بہت سکینت نازل فرما اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم مضبوط کر دے، مشرکوں نے یقینا ہم پر سخت زیادتی کی۔" کہا: جب میں نے اپنے رجزیہ اشعار ختم کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ (اشعار) کس نے کہے؟" میں نے جواب دیا: میرے بھائی نے کہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ ان پر رحم کرے!" کہا: تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہوئے ڈر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: وہ آدمی اپنے ہی اسلحے سے فوت ہوا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوا ہے۔" ابن شہاب نے کہا: پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے سوال کیا تو انہوں نے مجھے اپنے والد سے اسی کے مانند حدیث بیان کی، مگر انہوں نے (حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ دہراتے ہوئے) کہا: جب میں نے کہا: کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرنے سے ڈرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں نے غلط کہا، وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوئے، ان کے لیے دہرا اجر ہے۔" اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب خیبر کا دن تھا، تو میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر بڑی شدید جنگ لڑی اور اس کی تلوار پلٹ کر اسے لگی اور اسے قتل کر ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اس سلسلہ میں نکتہ چینی کی اور اس کی شہادت میں شک کیا، یہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے اور اس کے بعض معاملہ میں (شہادت میں) شک کیا، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے رجزیہ اشعار سنانے کی اجازت دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے، جو کہنا چاہتے ہو اس کو سوچ سمجھ لو، میں نے کہا، اللہ کی قسم! اگر اللہ کی توفیق نہ ہوتی، ہم راہ یاب نہ ہوتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تو نے سچ کہا) اور ہم پر سکینت نازل فرما اور مڈبھیڑ کی صورت میں ہمیں ثابت قدم رکھ۔ مشرکوں نے یقینا ہم پر زیادتی کی ہے۔ تو جب میں نے رجزیہ کلام ختم کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ کلام کس کا ہے؟ میں نے جواب دیا، میرے بھائی نے کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! کچھ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے خوف محسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں، ایسا آدمی ہے، جو اپنے اسلحے سے فوت ہوا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انتہائی کوشش سے جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا ہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں، پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا، تو اس نے اپنے آپ باپ سے مجھے اس طرح روایت سنائی، صرف یہ فرق تھا کہ اس نے کہا، جب میں نے یہ کہا، کچھ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے ہیبت کھاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے غلط کہا، وہ انتہائی کوشش سے جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا، اس لیے اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2538  
´اپنے ہی ہتھیار سے زخمی ہو کر مر جانے والے شخص کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کر دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مر گیا ہو (وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے؟)، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے۔‏‏‏‏ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: پھر میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2538]
فوائد ومسائل:
اس مجاہد کے لئے دوہرے اجر کی خوشخبری ممکن ہے۔
جہاد اور شہادت کی بنا پر ہو۔
واللہ اعلم۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2538   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4669  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
عامر بن اکوع،
ایک لحاظ سے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے چچا ہیں،
تو دوسرے لحاظ سے ان کے اخیافی بھائی ہیں،
کہ جاہلیت کے رواج کے مطابق،
اکوع نے عامر کی والدہ کو جو ان کے باپ کی بیوی ہے،
لیکن اس کی ماں نہیں ہے،
اپنے گھر ڈال لیا تھا،
تکملہ ج (3)
ص (225)
۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر نشانہ خطا ہو کر اپنے آپ کو لگ جائے اور انسان اس سے فوت ہوجائے،
تو وہ خود کشی شمار نہیں ہوگا،
یہ اشعاری ہی آپ نے عامر سے سنے تھے،
اب سلمہ رضی اللہ عنہ پڑھے،
اس لیے آپ نے پوچھا،
یہ رجزیہ کلام کس کا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4669