صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
8. باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ:
باب: بادشاہ یا حاکم یا امام کی اطاعت واجب ہے اس کام میں جو گناہ نہ ہو اور گناہ میں اطاعت کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4768
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: " بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَعَلَى أَثَرَةٍ عَلَيْنَا وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَيْنَمَا كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ "،
ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبداللہ بن ادریس نے یحییٰ بن سعید اور عبیداللہ بن عمر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبادہ بن ولید سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس بات پر بیعت کی کہ مشکل میں اور آسانی میں اور خوشی میں اور ناخوشی میں اور خود ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور اس بات پر بیعت کی کہ جن کے پاس امارت ہو گی، امارت کے معاملے میں ان سے تنازع نہیں کریں گے اور ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے (ہمیشہ) حق نہیں گے اور اللہ کے (دین پر چلنے کے) معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے
عبادہ بن ولید بن عبادہ اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں، خوشی اور ناخوشی میں اور اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی صورت میں بھی سننے اور ماننے پر بیعت کی اور اس پر بیعت کی، کہ ہم اہل اقتدار کے ساتھ رسہ کشی نہیں کریں گے، (اقتدار چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے) اور ہم ہر حالت میں جہاں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اللہ کے دین کے سلسلہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866  
´بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

(2)
زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:

(ا)
مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

(ب)
راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔

(ج)
بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔

(د)
بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔
حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔

(3)
حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

(4)
اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔
اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔

(5)
جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2866