صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
13. باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِيرِ الدُّعَاةِ إِلَى الْكُفْرِ:
باب: فتنہ اور فساد کے وقت بلکہ ہر وقت مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا۔
حدیث نمبر: 4795
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
4795. زید کے والد اسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی جو نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سندوں سے مذکورہ روایت کے ہم معنی حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ہی سے بیان کرتے ہیں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4795  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
البدایۃ ولنھایۃ کی روشنی میں واقعہ حرہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل مدینہ کے کچھ افراد نے یزید بن معاویہ کی خلافت سے علیحدگی کا ارادہ کیا،
تو یزید کے گورنر نے اہل مدینہ کے بہت سے معزز افراد کو یزید کے پاس بھیجا،
اس نے ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کی اور ان کو خوب تحفہ و تحائف سے نوازا،
لیکن جب یہ وفد واپس آیا،
تو انہوں نے یزید کو بہت برا بھلا کہا اور اس پر بہت سے الزامات لگائے اور اس کی خلافت سے انکار کا اظہار کیا،
جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا،
کہ وہ انہیں اس کام کے برے انجام سے ڈرائیں اور انہیں دوسرے لوگوں کی طرح سمع و اطاعت پر قائم رہنے کی تلقین کریں،
حضرت نعمان رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر انہیں،
اس فتنہ کے انجام بد سے آگاہ کیا اور بتایا،
اہل شام کا مقابلہ کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے،
لیکن اہل مدینہ نے اس کی بات نہ مانی،
بلکہ قریش،
عبداللہ بن مطیع کی سرکردگی میں اور انصار عبداللہ بن حنظلہ کی سرکردگی میں جمع ہو گئے اور اس بات پر اتفاق کر لیا،
یزید کے عامل اور بنو امیہ کو مدینہ سے نکال دیا جائے،
بنو امیہ،
سب مروان بن حکم کے احاطہ میں جمع ہو گئے،
حضرت زین العابدین اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے لوگوں کو اس سے روکا اور عبدالمطلب کی اولاد نے بھی اہل مدینہ کا ساتھ نہ دیا،
بلکہ حضرت محمد بن حنفیہ نے تمام الزامات کی پرزور انداز میں تردید کی اور ان کو مناظرہ کی دعوت دی،
لیکن لوگ باز نہ آئے اور بنو امیہ کا محاصرہ کر لیا،
بنو امیہ نے یزید کو لکھا،
ہمیں گھیر لیا گیا ہے اور ہماری توہین و تذلیل کی جا رہی ہے اور ہم بھوکے پیاسے محاصرہ میں آئے ہوئے ہیں تو یزید نے 63ھ میں ایک بہت بڑا لشکر مسلم بن عقبہ رحمہ اللہ کی قیادت میں روانہ کیا اور اسے کہا،
تین دن تک انہیں اس کام سے باز آنے کی دعوت دینا،
اگر وہ اطاعت قبول کر لیں،
تو انہیں کچھ نہ کہنا،
اگر وہ لڑائی پر اصرار کریں تو پھر اللہ کا نام لے کر ان سے جنگ کرنا،
مسلم بن عقبہ نے مدینہ کے مشرقی جانب کے حرہ میں آ کر پڑاؤ کیا اور تین دن تک ان کو اطاعت کی دعوت دی،
لیکن انہوں نے جنگ پر اصرار کیا،
تو دونوں فریقوں میں گھمسان کا رن پڑا،
بہت سے شرفاء کام آئے اور اہل مدینہ شکست کھا گئے اور مدینہ کی حرمت پامال ہوئی،
فوج نے ان کے اموال کو لوٹ لیا۔
(البدایہ والنھایۃ ج 8،
ص 216 تا 220)

بہرحال جس قسم کے الزامات یزید پر لگائے جاتے ہیں،
اگر ان میں حقیقت ہوتی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کبھی اس کی حمایت نہ کرتے اور اپنے اہل و عیال اور اپنے متعلقین کو اس کی اطاعت پر قائم رہنے کی تلقین نہ کرتے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو قطع تعلق کی دھمکی نہ دیتے،
اس طرح حضرت محمد بن حنفیہ،
اس پر لگائے گئے الزامات کی تردید کے لیے مباحثۃ و مناظرہ نہ کرتے اور حضرت زین العابدین،
اس کے لشکر کی حمایت نہ فرماتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4795