صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
54. باب مُرَاعَاةِ مَصْلَحَةِ الدَّوَابِّ فِي السَّيْرِ وَالنَّهْيِ عَنِ التَّعْرِيسِ فِي الطَّرِيقِ:
باب: جانوروں کی بھلائی کا خیال رکھنا سفر میں اور رات کو راستہ میں اترنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 4959
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْخِصْبِ، فَأَعْطُوا الْإِبِلَ حَظَّهَا مِنَ الْأَرْضِ، وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِي السَّنَةِ، فَأَسْرِعُوا عَلَيْهَا السَّيْرَ وَإِذَا عَرَّسْتُمْ بِاللَّيْلِ، فَاجْتَنِبُوا الطَّرِيقَ فَإِنَّهَا مَأْوَى الْهَوَامِّ بِاللَّيْلِ ".
جریر نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم شادابی (کے زمانے) میں سفر کرو تو زمین میں سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشک سالی (یا قحط زدہ زمین) میں سفر کرو تو اس زمین پر سے جلدی گزرو اور جب تم رات کے آخری حصے میں منزل کرو تو گزر گاہ سے ہٹ جاؤ کیونکہ رات کو وہ (راستے کی) جگہ حشرات الارض کا ٹھکانا ہوتی ہے، " (وہاں اپنی خوراک کے حصول کے لیے آتے ہیں۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سبزہ کے موسم میں سفر اختیار کرو تو اونٹوں کو زمین سے ان کا حصہ دو، اور جب تم خشک سالی میں سفر کرو تو تیز رفتار کو اختیار کرو۔ اور جب تم رات کو پڑاؤ کرو، تو راستہ پر اترنے سے اجتناب کرو، کیونکہ رات کو وہ زہریلے کیڑوں کا ٹھکانہ ہوتے ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2858  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ہریالی اور شادابی کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹ کو زمین سے اس کا حق دو (یعنی جی بھر کر چر لینے دیا کرو) اور جب تم خزاں و خشکی اور قحط کے دنوں میں سفر کرو اس کی قوت سے فائدہ اٹھا لینے میں کرو تو جلدی ۱؎ اور جب تم رات میں قیام کے لیے پڑاؤ ڈالو تو عام راستے سے ہٹ کر قیام کرو، کیونکہ یہ (راستے) رات میں چوپایوں کے راستے اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2858]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی کوشش کر کے جلد منزل پر پہنچ جاؤ،
کیونکہ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے چارے کی کمی کے باعث اونٹ کمزور پڑ گیا تو تم پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2858   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4959  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
هوام،
هامة کی جمع ہے،
زہریلے کیڑے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث نے ہمیں آداب سفر سکھائے ہیں،
کہ جب جانور پر سفر کرو،
تو ان کے کھانے پینے کا لحاظ رکھو،
اگر سرسبز و شاداب علاقہ کا سفر ہو،
تو جانور کو زیادہ دوڑانا نہیں چاہیے اور اس کو چرنے چگنے کا موقعہ دینا چاہیے،
لیکن اگر قحط سالی کا موسم ہو،
راستہ میں چارا نہ ہو،
تو پھر سفر میں تیز رفتاری اختیار کر کے جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے،
تاکہ وہاں جا کر ان کو چارا مہیا کیا جا سکے،
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں سے کام لینے کے آداب بتائے ہیں،
آج اس کے امتی ڈرائیوروں کے کھانے پینے اور آرام و سہولت کا لحاظ نہیں رکھتے۔
نیز آپﷺ نے فرمایا،
رات کو جب پڑاؤ کرنا،
تو راستہ کے درمیان پڑاؤ نہیں کرنا چاہیے،
کیونکہ ممکن ہے،
کچھ اور لوگ سفر کر رہے ہوں اور انہیں یہاں سے گزرنا پڑے اور انہیں راستہ کی تنگی سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور راستہ اگر خالی ہو تو رات کو حشرات الارض اپنی بلوں سے نکل کر راستہ میں آ جاتے ہیں،
اس لیے راستہ میں پڑاؤ کرنے سے ان کے ڈسنے کا بھی احتمال ہوتا ہے،
اس لیے رات کو راستہ سے ہٹ کر پڑاؤ کرنا چاہیے،
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے،
راستہ میں گاڑیوں کا کھڑا کرنا درست نہیں ہے،
کیونکہ اس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے،
اس لیے ٹریفک کے اصول کی پابندی ضروری ہے،
تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو اور سڑکوں کو بلاک کرنا،
اس طرح گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ جو مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی،
جائز نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4959