صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
55. باب السَّفَرِ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ الْمُسَافِرِ إِلَى أَهْلِهِ بَعْدَ قَضَاءِ شُغْلِهِ:
باب: سفر ایک عذاب ہے۔
حدیث نمبر: 4961
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، وَأَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ ، وَمَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِمَالِكٍ : حَدَّثَكَ سُمَيٌّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ نَوْمَهُ وَطَعَامَهُ وَشَرَابَهُ، فَإِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ نَهْمَتَهُ مِنْ وَجْهِهِ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ ". قَالَ: نَعَمْ.
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے کہا: میں نے امام مالک سے پوچھا: سمی نے آپ کو ابوصالح کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تم میں سے ایک (مسافر) کو سونے، کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے، جب تم میں سے کوئی شخص وہ کام سر انجام دے چکے جو اس کے پیشِ نظر تھا تو وہ جلد اپنے گھر آئے"؟ انہوں (امام مالک) نے کہا: ہاں۔
امام مالک کے شاگرد یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ روایت سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر عذاب کا حصہ ہے، وہ تمہیں اپنے سونے، اپنے کھانے اور اپنے پینے سے روکتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی اس سفر سے اپنی ضرورت پوری کر لے، فورا اپنے گھر لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا، ہاں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2882  
´حج کے لیے نکلنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تمہارے سونے، اور کھانے پینے (کی سہولتوں) میں رکاوٹ بنتا ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنے سفر کی ضرورت پوری کر لے، تو جلد سے جلد اپنے گھر لوٹ آئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2882]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سفر میں کئی طرح کی تکالیف اور مشقت ہوتی ہے جب کہ گھر کی راحت وآرام اللہ کا احسان ہے اس لیے کسی معقول سبب کے بغیر خواہ مخواہ ادھر ادھر گھومنا مناسب نہیں۔

(2)
محض تفریح کے طور پر طویل سفر کرنا ایک فضول مشغلہ ہے جو وقت اور دولت کا ضیاع ہے خاص طور پر غیر مسلم ممالک میں جہاں جاہلی تہذیب تمام قباحتوں کے ساتھ پوری قوت سے اثر انداز ہوتی ہے۔
بلاضرورت وہاں کا سفر کرکے اپنے ایمان اور عفت کو خطرے میں ڈالنا محض حماقت ہے۔

(3)
شرعی طور پر جائز مقاصد کے لیے سفر کرنا جائز ہی نہیں مستحسن بھی ہے بلکہ بعض اوقات فرض بھی ہوجاتا ہے مثلاً فرض حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے یا ایسے علم کے حصول کے لیے جو وطن میں دستیاب نہیں۔
اس کے علاوہ کسی بھی جائز مقصد کے لیے سفر کرنا درست ہے مثلاً:
مسجد حرام، مسجد نبوی یا مسجد اقصی کی زیارت کے لیے اسی طرح کسی نیک آدمی یا رشتہ دار وں اور دوستوں سے ملاقات کے لیے اور تجارت وملازمت وغیرہ کے لیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2882   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4961  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نهمته:
اپنی ضرورت وحاجت۔
(2)
من وجهه:
سفر پر جانے سے۔
فوائد ومسائل:
انسان جب سفر پر ہوتا ہے،
تو اسے سفری صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنے معمولات سے کٹ جاتا ہے اور آج کل تو حادثات اور دہشت گردی اور ڈاکہ کا خطرہ بھی رہتا ہے،
نیز نیند،
کھانے پینے کے تمام معمولات متاثر ہوتے ہیں،
ہر کام گھر والی سہولت اور آسائش کے ساتھ سرانجام نہیں پاتے،
نیز اہل و عیال اور دوست احباب کی جدائی بھی رنج کا باعث بنتی ہے،
اس لیے بلا مقصد اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں رہنا چاہیے،
اگرچہ سفر وسیلہ ظفر ہے اور سفر کی مشقتوں سے انسان جفاکشی کا عادی بنتا ہے اور کڑوی دوائی کی طرح وہ صحت کا سبب بن جاتا ہے،
جیسا کہ امام ابن بطال نے ایک مرفوع حدیث بیان کی،
سافروا تصحوا سفر کرو،
صحت یاب ہو جاؤ،
اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے،
لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے،
اگر اس سے تجاوز کر جائے تو وہ فائدہ کی بجائے نقصان پہنچاتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4961